سورہ الماعون مکی سورۃ ہے۔ اِس کی ابتدائی تین آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہیں جبکہ آخری تین آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں۔

  • أَرَأَيتَ الَّذي يُكَذِّبُ بِالدّينِ
  • فَذٰلِكَ الَّذي يَدُعُّ اليَتيمَ
  • وَلا يَحُضُّ عَلىٰ طَعامِ المِسكينِ

ترجمہ

ترمیم
  • کیا تو نے (اُسے بھی) دیکھا جو (روزِ) جزاء کو جھٹلاتا ہے؟ O 
  • یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے O
  • اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا O

مقام نزول

ترمیم

یہ آیات کس کے حق میں نازل ہوئیں؟ اِس میں اختلاف ہے۔ ابوصالح نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ سورۃ عاص بن وائل سہمی کے حق میں نازل ہوئی۔ کلبی اور مقاتل بن سلیمان نے بھی اِسی قول کو اختیار کیا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ یہ سورۃ دو منافقوں کے حق میں نازل ہوئی۔ سدی کا قول ہے کہ ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی۔[1][2] اکثر اقوال کے مطابق ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی۔ ضحاک کا قول ہے کہ: یہ عمرو بن عائذ کے حق میں نازل ہوئی۔ ابن جریج مکی کا قول ہے کہ: یہ ابوسفیان کے حق میں نازل ہوئی کہ وہ ہر ہفتہ اونٹ ذبح کیا کرتا تھا، ایک یتیم نے اُس سے کوئی شے طلب کی تو ابوسفیان نے اُسے اپنے ڈنڈے سے مارا تو اللہ تعالیٰ نے اِس سورۃ کو نازل فرمایا۔[3]

مفسر قرآن ضحاک بن مزاحم بلخی الہلالی (متوفی 105ھ/ 723ء) کا قول ہے کہ: اِس سورۃ کی پہلی آیت   أَرَأَيتَ الَّذي يُكَذِّبُ بِالدّينِ     عمرو بن عائذ المخزومی کے متعلق نازل ہوئی ہے۔[4] امام جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ/ 1505ء) نے تفسیر جلالین میں قول نقل کیا ہے کہ: یہ آیت   وَلا يَحُضُّ عَلىٰ طَعامِ المِسكينِ     عاص بن وائل سہمی یا ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئی۔[5] امام ابی عبد اللہ محمد ابن عرفہ الورغمی (متوفی 803ھ/ 1401ء) نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت ابوسفیان کے متعلق نازل ہوئی ہے۔[6] امام محمد بن یوسف ابی حیان الاندلسی (متوفی: 745ھ/ 1344ء) نے بیان کیا ہے کہ اِس سورۃ کی ابتدائی تین آیات مکہ مکرمہ میں عاص بن وائل سہمی کے متعلق اور آخری تین آیات مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن ابی منافق سے متعلق نازل ہوئی ہیں۔[7]

تفسیر

ترمیم
  •   أَرَأَيتَ الَّذي يُكَذِّبُ بِالدّينِ    

اِس آیت میں دین سے مراد آخرت میں جزاء اور حساب ہے (سورہ الفاتحہ میں اِس کا مفہوم موجود ہے)۔  أَرَءَيْتَ میں دوسرے ہمزہ کو ثابت رکھا گیا ہے کیونکہ أَرَءَيْتَ میں رَیْتَ نہیں پڑھا جاتا، لیکن ہمزہ استفہام نے دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر تسہیل پیدا کی ہے۔ مفسر زجاج نے ذکر کیا ہے کہ اِس کلام میں حذف ہے جس کا معنی ہے : بتاؤ تو جو آدمی روزِ جزاء کو جھٹلاتا ہے کیا وہ درست ہے یا غلطی پر ہے؟ [8]

  •   فَذٰلِكَ الَّذي يَدُعُّ اليَتيمَ    

یَدُعُّ کے معنی ہیں : دھکے دیتا ہے۔ مفسر ضحاک نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے جس میں اِس کا معنی ہے : وہ یتیم کو حق دینے کی بجائے اُسے دھکے دیتا ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ: اِس کا معنی ہے " وہ اُس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے "۔ دونوں روایات کا مفہوم بالکل مشابہ ہے۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ: جس نے کسی یتیم کو اپنے ساتھ ملایا، یہاں تک کہ وہ غنی ہو گیا تو اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔[8]

  •   وَلا يَحُضُّ عَلىٰ طَعامِ المِسكينِ    

وہ بخل اور جزاء کو جھٹلانے کی وجہ سے مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم نہیں دیتا۔ اِسی مفہوم و معانی میں ایک آیت سورۃ الحاقہ میں بھی ہے کہ:  وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ    [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. محمد بن علی الشوکانی:  تفسیر فتح القدیر: جلد 5، صفحہ 673، سورۃ الماعون۔ مطبوعہ دارالوفاء، قاہرہ، مصر۔
  2. امام ابی محمد الحسین بن مسعود البغوی: معالم التنزیل تفسیر البغوی، صفحہ 1437، سورۃ الماعون۔ مطبوعہ دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1423ھ/ 2002ء۔
  3. امام قرطبی:  تفسیر قرطبی، جلد 10، صفحہ 509، سورۃ الماعون۔ مطبوعہ لاہور۔
  4. تفسیر ضحاک، جلد 2، صفحہ 989، سورۃ الماعون۔ مطبوعہ دارالسلام، قاہرہ، مصر، 1419ھ/ 1999ء۔
  5. جلال الدین سیوطی: مختصر تفسیر جلالین، سورۃ الماعون، صفحہ 602۔ مطبوعہ مکتبۃ لبنان ناشرون، 1423ھ/ 2003ء۔
  6. امام ابن عرفہ: تفسیر ابن عرفہ، جلد 4، صفحہ 347۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 2008ء۔
  7. امام ابی حیان الاندلسی:  تفسیر البحر المحیط: جلد 8، صفحہ 517، سورۃ الماعون۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1413ھ/ 1993ء۔
  8. ^ ا ب امام قرطبی:  تفسیر قرطبی، جلد 10، صفحہ 510، سورۃ الماعون۔ مطبوعہ لاہور۔
  9. سورہ الحاقہ: آیت 34۔