ابو القاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی(متوفی 502ھ1108ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام "المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن" ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر "المفردات فی غریب القرآن"کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے "مفردات القرآن" سے شہرت ہے۔ مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ اس میں 1589 مواد پر بحث کی گئی بعض ایسے الفاظ کو بھی زیر بحث لایا گیا جو متروک ہیں۔ یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی۔ طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کیے جاتے ہیں پھرانہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کے لیے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہو جاتے ہیں۔ بہت سے مصنفین اور ائمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے[1]

مفردات القرآن (کتاب)
(عربی میں: المفردات في غريب القرآن ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مصنف راغب اصفہانی  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادبی صنف تفسیر قرآن  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 12ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کتاب میں مصنف کا منہج ترمیم

امام اصفہانی نے قرآنی آیات کے ہر لفظ کی صرفی تحقیق و بحث کی ہے، اس لفظ کا حدیث اور شعر سے استشہاد کیا ہے اور اس کے مجاز و تشبیہ کا بھی ذکر کیا ہے، اس کتاب کو الف باء کی ترتیب پر مرتب کیا ہے۔ قرآن کے مفرد الفاظ کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کیا ہے، الف سے یا کی ترتیب کے مطابق۔ چنانچہ (حسب) کا لفظ (حسد) سے پہلے ہے اور یہ دونوں الفاظ (خرج) سے پہلے ہیں۔

کتاب کی خصوصیات ترمیم

احمد حسن فرحات نے کتاب کی جو خصوصیات بیان کی ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

  1. کلمۃ کی اصل ظاہر کرنا :- یعنی کلمہ کے اصل کا ایسا معنی بیان کر دینا جو اپنے تمام معانی کو شامل ہو، ایسا لگتا ہے کہ اصفہانی اس سلسلہ میں ابن فارس کی کتاب "معجم مقاییس اللغۃ" سے متأثر ہیں۔
  2. استعارہ میں استعمال معانی کی تحقیق۔
  3. صحیح معانی کی تحقیق :- یعنی کبھی کبھی انبیا کے تعلق سے بعض ایسی باتیں آتی ہیں کہ اس کی اگر اس کی تاویل کسی دوسرے معنی میں نا کی جائے تو نبی کی عصمت پر زد آسکتی ہے، اس لیے ایسی جگہوں پر اصفہانی ایک ایسا صحیح معنی تلاش کرتے ہیں جو نبی کی عصمت کے شایان شان ہو۔
  4. ظنی اور غیر مراد معانی کی نفی : یعنی بعض مواقع پر بسا اوقات قاری کے ذہن میں ایک لفظ کے کئی کئی معانی آجاتے ہیں حالانکہ اصل معنی ان کے علاوہ ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اصفہانی ان تمام غیر مراد معانی کی نفی کردیتے ہیں اور لفظ کے مناسب معنی کی وضاحت کر دیتے ہیں، جیسے کہ لفظ خوف (ڈرنا) کے تعلق سے اصفہانی نے الخوف من اللہ (اللہ سے ڈرنا) لکھا ہے۔ یعنی عام طور سے جو ڈرنا سمجھا جاتا ہے وہ مراد نہیں ہے، جیسے شیر سے ڈرنا۔ یہاں اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی سے بچا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے۔
  5. قواعد کلیہ : بہت سے مقامات پر اصفہانی بعض کلمات کی تشریح کرتے ہوئے قاعدہ کلیہ بیان کر دیتے ہیں، یعنی اس کلمہ کے قرآنی استعمال کی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ مثلا: کہتے ہیں (لفظ "تبارک" قرآن میں جہاں بھی استعمال ہوا ہے وہ اللہ کی خیر کی صفات کے ساتھ خاص ہے)
  6. قواعد اکثریہ : بعض جگہوں پر اصفہانی یہ وضاحت کردیتے کہ یہ لفظ اس معنی میں اکثر استعمال ہوتا ہے، تاکہ اس کے کلی معنی کی نفی ہو جائے۔ مثلا: لکھتے ہیں (لفظ "سعي" کا زیادہ تر استعمال قابل تعریف احوال کے لیے ہوتا ہے)

حوالہ جات ترمیم

  1. مفردات القرآن حصہ اول ،راغب اصفہانی،صفحہ 19،اسلامی اکادمی لاہور