المقتنیٰ بہاء الدین
بہاء الدین (979ء – 1043ء) ایک سریانی مسیحی تھا اور اس کا نام المقنیٰ بہا الدین تھا۔ دروز مذہب کی اشاعت کے لیے حمزہ بن علی بن احمد کے اس شاگرد نے اس کی مسند سنبھال لی جسے کے بعد کچھ مدت تک رپوش رہا۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے یہ وقت مصر میں گزارا یا شام تک۔ اس نے تمام پیرووں یا متوقع پیرووں کو خطوط بھیجے، جن کا دائرہ بزنطین سے ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ دروزی اب بھی اس کے خطوط بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان خطوط میں ایک کا نام القسطینطنیہ تھا جو شہنشاہ قسطنطین ہشتم ( 1025ء تا 1028ء) کے نام بھیجا گیا تھا۔ ایک کا نام المسیحیہ ہے جس میں مسیحوں سے خطاب کیا گیا ہے۔ دروزیوں کی چار مقدس کتابیں اس سے منسوب ہیں اور دینی مصنفوں میں وہ سب سے بڑا مانا جاتا تھا۔ اس کے آخری شارحین میں عبد اللہ التنوخی تھا۔ وفات ( 1480ء ) یہ السید کہلاتا تھا اور اس کی قبر عابیہ (لبنان) میں ہے۔ وہاں ہر سال ہزاروں دروزی تحفے اور نذریں لے کر جاتے ہیں۔ بہاء الدین نے زندگی کے آخری دور میں نئی پالیسی کو جاری کی۔ اس نے کہا کہ الحاکم کی غیبت میں اس کے مذہب کی کوئی چیز ظاہر نہ کی جائے اور نہ اس پر عمل ہو۔ یہ پالیسی بلاشبہ حفاظت کا نتیجہ تھی اور جو جداگانہ طبقہ سنیوں، شیعوں اور نصیریوں جیسی حریف جماعتوں میں رہتا ہے۔ اس لیے حفاظت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا۔ بہا الدین کا کہنا تھا کہ نئے مذہب کے لیے جو انعامات ہیں دنیا اس کی اہل ثابت نہیں ہوئی۔ لہذا دروازہ بند کر دیا گیا اور کسی کو داخل ہونے یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ مقدس کتابیں مخطوطوں کی شکل میں موجود تھیں۔ عام دروزیوں کو بھی ان کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی ۔[1][2]
المقتنیٰ بہاء الدین | |
---|---|
(عربی میں: المقتنى بهاء الدين) | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 979ء |
تاریخ وفات | سنہ 1043ء (63–64 سال) |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
درستی - ترمیم |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر
- ↑ فلپ حتی۔ تاریخ شام