دروز

ایک علاقائی مذہبی گروہ جو عربی زبان بولتا ہے۔

دروز یا حاکمیہ شامی نسل کے باطنی اسماعیلی شیعوں کا فرقہ ہے۔ ان کی تعداد بیسویں صدی کے وسط میں دو لاکھ تھی۔ یہ زیادہ تر شام کے متفرق حصوں میں رہتے ہیں۔ بالخصوص جبال، لبنان غربی، جبال شرقی اور حواران میں۔ ان میں سے زیادہ تر زراعت پیشہ اور زمیندار لوگ ہیں۔ دروزی مختلف اقوام مثلاً کرد، مارڈی عرب اور کم تہذیب یافتہ قبیلوں پر مشتمل ہیں۔ جنوبی لبنان میں گیارھویں صدی عیسوی میں مختلف اسلامی اور نسلی گروہ داخل ہوئے۔ مثلاً شیعہ، اسروری، ایرانی اور عربی وغیرہ۔ ان سب کے مل جل جانے سے دروزی جماعت وجود میں آئی۔ دروزیوں کے ظہور کے بعد کوہستان لبنان کی تاریخ مارونیوں اور دروزیوں کے تعلقات کے گرد گھومنے لگی۔

دروز
کل آبادی
1,000,000 سے 2,500,000 تک
بانی
دروزی، حمزہ بن علی بن احمد اور حاكم بأمر الله
اہم آبادی والے علاقے
 سوریہ700,000[1]
 لبنان250,000[1]
 اسرائیل125,300[2]
 اردن20,000[3]
مشرق وسطی کے باہر100,000
 ریاستہائے متحدہ20,000[4]
 کینیڈا10,000
 وینیزویلا5,000
 آسٹریلیا3,000[5]
 کولمبیا3,000
 برطانیہ1,000
مذاہب
موحدین دروز
کتابیں
قرآن، رضا الحکمہ (مراسلہ حکمت)
زبانیں
عربی
انگریزی
عبرانی (اسرائیل میں)
فرانسیسی (لبنان میں اور شام) ہسپانوی زبان (کولمبیا میں اور وینیزویلا)

بانی ترمیم

اس فرقہ کے بانیوں میں عجمی داعی حسن بن حیدرہ فرقانی، حمزہ بن زردونی اور محمد بن اسسرور درازی ہیں۔ گو یہ فرقہ درازی کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے دروزی کہلاتا ہے، لیکن اس کا حقیقی بانی حمزہ بن زرونی ہے۔ یہی دروزیوں میں بہت معتبر اور مستند رہنما ہے۔ ان کے اکثر رسالے بھی اسی طرف منسوب ہیں۔ اس نے ایک نیا سن جاری کیا تھا جو 804 ہجری میں شروع ہوتا تھا۔ حمزہ کے بعد اس مذہب کی اشاعت حمزہ کے ایک شاگرد بہائ الدین نے اس کی مسند سنبھال لی۔

عقائد ترمیم

اکثر باطنی فرقوں کے عقیدے یونانی فلسفہ اور ایرانی مذہب کی تعلیم سے ماخوذ ہیں۔ چونکہ دروزیوں کے اکثر داعی ایرانی تھے۔ اس لیے ان کے عقیدے بھی اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حلول کے متعلق ان کا عقیدہ یہ کہ خدا کروڑوں سال کے حاکم کی شکل میں ظاہر ہوا۔ رعیت سے ناراض ہو کر غائب ہو گیا ہے۔ قیامت کے روز پھر ظاہر ہوگا اور تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ اس کے حکم سے ایک آگ اترے گی اور کعبے کو جلادے گی۔ پھر مردے زمین سے اٹھیں گے۔ عقل و نفس کے تمام مسائل یونانی فلسفہ پر مبنی ہیں۔ دروزی مذہب کے چار بڑے اصول ہیں۔

  • خدا کا علم خاص کر انسانی شکل ہیں۔

عقل کا علم جو سب سے اعلی موجود ہے۔ لیکن باوجود اس رتبہ کے وہ خدا کا بندہ اور غلام ہے۔ اس کا نام عیسیٰ کے زمانے میں لزراس Lazarus۔ حصرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں سلمان فارسی اور حاکم کے زمانے میں حمزہ ہے۔

  • چار روحانی موجودات کا علم

دوسرے چار روحانی موجودات کا علم جو نفس کل، سابق یعنی سیدھا بازو اور لاحق یعنی دایاں بازو ہیں۔ ان چار موجودات نے اسسرور، محمد ( بن اسسرور )، سلیمان اور علی کی شکلیں اختیار کی ہیں۔

  • سات اخلاقی احکام کا علم

سات اخلاقی احکام کا علم، سچائی، بھائیوں کی محبت، بتوں کی عبادت ترک کرنا، شیطانوں اور جنوں کی تردید، خدا کی توحید ہر زمانے میں، خدا کے فعل پر خوش ہونا، ( یا مذہب پر تقیہ کرنا جیسا کہ بعض روایتوں میں ہے اور یہی صحیح ہے ) خدا کی مرضی کے تابع ہونا، انسان کو تناسخ کے دوران میں کچھ جزا تو مل جاتی ہے۔ لیکن حقیقی جزا اوور سزا قیامت ہی کے روز ملے گی۔

باطن ترمیم

مذہبی معاملات کو پوشیدہ رکھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ عام شیعی فرقوں کا طریقہ ہے۔ اجنبیوں کو دروزی کبھی کبھی اپنی مجلسوں میں شریک ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ لیکن جب تک وہ حاضر رہتے ہیں اس وقت تک عام اسلامی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنے خاص مذہب کی کوئی بات نہیں کرتے ہیں۔ اس طرز عمل سے لوگوں نے ان کے متعلق بری بری رائیں قائم کر رکھیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے خلوت خانوں میں شرمناک اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ لوگ گائے کے سر کی پوجا کرتے ہیں۔ سیاسی لڑائیوں میں دروزیوں کے چند خلوت خانے لوٹے گئے۔ جن میں بہت سے رسالے نکلے۔ یہ رسالے یورپ اور ایشیا کے مختلف کتب خانوں میں ہیں۔ جن مطالع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دروزی اعمال شریعت کے قائل نہیں ہیں۔ حاکم کو خدا ماننے کے بعد تمام اعمال بیکار اور فضول ہیں۔ ان کے اصول کے موافق دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہٰیں۔

  1. ظاہر شریعت کے پابند جو مسلمان ہیں۔
  2. باطن کے پابند جو مومنین ہیں۔
  3. ظاہر اور باطن کو ماننے نہ والے موحدین ہیں اور ان کا درجہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔

کتابیں ترمیم

1524 عیسوی میں دمشق کے پاشا نے لبنان کے دروزی علاقہ پر حملہ کرکے ان کے تئیس 23 گاؤں چلادیے۔ ان کی خلوت گاہوں کو لوٹا۔ مقدس مخطوطات کے نسخے لے آئے اور کٹے ہوئے سروں کے چار بار بھی ساتھ تھے۔ دوسرا حملہ غارت گرانہ حملہ اس کے تین سو سال کے بعد مصر کے ابراہیم پاشا نے کیا اور وہ شمعہ ( حاصبیہ کے جنوب مشرق میں ) کی مقدس خلوت گاہ سے جو قدیم ترین خلوت گاہ میں سے ایک تھی، بہت سے قلمی نسخے اٹھا لایا اور یہ مصر اور یورپ کے کتب خانوں میں پہنچے۔ اس طرح اخفا کا پردہ چاک ہوا، جو دروزیوں کے عقائد پر ابتدا سے پڑا ہوا تھا اور جن کی حفاظت اس اہتمام سے کی جاتی تھی کہ کسی دوسرے مذہب کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔

داعی حمزہ اور اس کے چار مددگاروں نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ کلام اللہ کی مانند نہایت مقدس مانی جاتی ہیں اور خلوتوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ یہ تعداد میں چھ اور ایک سو گیارہ رسالوں پر مشتمل ہیں۔ ان کو سوائے عقال کے کوئی چھو نہیں سکتا ہے۔

پابندیاں ترمیم

بہا الدین نے کہا کہ الحاکم کی غیبت میں اس کے مذہب کی کوئی چیز ظاہر نہ کی جائے اور نہ اس پر عمل ہو۔ یہ پالیسی بلاشبہ حفاظت کا نتیجہ تھی اور جو جداگانہ طبقہ سنیوں، شیعوں اور نصیریوں جیسی حریف جماعتوں میں رہتا ہے۔ اس لیے حفاظت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا۔ بہائ الدین کا کہنا تھا کہ نئے مذہب کے لیے جو انعامات ہیں دنیا اس کی اہل ثابت نہیں ہوئی۔ لہذا دروازہ بند کر دیا گیا اور کسی کو داخل ہونے یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ مقدس کتابیں مخطوطوں کی شکل میں موجود تھیں۔ عام دروزیوں کو بھی ان کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ صرف چند عقال ( دانشمند، ذی عقل ) ان کتابوں کو دیکھ سکتے تھے۔ روشنی عقال میں سے بھی صرف ان بلند مرتبہ لوگوں کو مل سکتی تھی، جو ازروئے کردار قابل اعتماد تھے اور معلومات کے انتہائی اخفائے راز کے اہل تھے۔ جو شخص اس دائرے میں دائرے میں داخل ہونا چاہے اس سے کڑے امتحان لیے جاتے تھے اور مدت تک امیدواری کرنی پڑتی ہے۔ پھر مذہب میں داخلے کی رسم ادا ہوتی ہے۔ اس کے بعد لازم ہے وہ شخص سخت اخلاقی ضوابط کا پابند ہو جائے۔ اس کی ہر حرکت میں عز و وقار نمایاں ہو۔ ہر قسم کے ناجائز فوائد سے احتراز کرے۔ اپنی زبان گالی سے آلودہ نہ ہونے دے۔ شراب اور تمباکو نہ پیئے۔ ان میں اعلیٰ درجے کے متقی آدمیوں کو کو اجاوید کہا جاتا ہے۔ وہ کسی سرکاری افسر کے ہاں کھانے پینے میں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ یہ چائے اور قہوہ سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور پانی کے سوا کوئی اور چیز استعمال نہیں کرتے ہیں۔ دوسری جاعت جہال کی ہوتی ہے۔ جن پر مذہب کی پابندیاں نہیں ہہوتیں ہیں۔ یہ لوگ ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔

ایسی شرطوں کے لحاظ سے ریوند ہیاسکٹ اسمتھReverend HasKat Smith نے ان کو فری مسنری میں شمار کیا ہے۔ کیوں کہ فری مسنری کے قائدوں میں امیدواروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پوری عمر کا ہو، آزاد ہو اور نیک نام ہو۔ اور بھی بہت سی مشابہتیں ریونڈ نے بتائی ہیں۔

مذہبی اور سیاسی نظام ترمیم

ان لوگوں کی مسجدیں نہیں ہوتی ہیں۔ کیوں کہ یہ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ مسجد کی بجائے یہ ایک مکان میں ہر شب پنجشنیہ کو مجلس منقد کی جاتی ہے۔ اسے یہ ’ خلوت خانہ ‘ کہتے ہیں۔ اس مجلس میں چند مخصوص دعائیں پڑھی جای ہیں۔ اس کے بعد مذہب اور سیاست پر بحث کی جاتی ہے۔ سیاسیات سے انھیں خاص دلچسپی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خلیفہ حاک پھر ظاہر ہوکر دنیا پر حکوت کرے گا۔ یہی وجہ ہے مذہبی لحاظ سے ان کو ہمیشہ مسلح رہنا چاہیے۔ ہر گاؤں میں ایسی ایک مجلس منقد کی جاتی ہے۔ ان تمام مجلسوں کی رپوٹوں کو صدر جلس کو بھیجی جاتی ہے۔ جو بکلین Bakin واقع جبل لبنان میں ہوتی ہے۔ گویا ان کے تمام مذہبی اور سیاسی معمالات ایک کونسل کے ذریعہ طہ پاتے ہیں۔ جس میں صرف عقال ہی شریک ہو سکتے ہیں۔ کونسل سے فارغ ہوکر ان کے خطیب خانقاہوں میں جاتے ہیں۔ جہاں یہ بڑی وقت سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس مجلس میں یہ عام طور پر حمزہ زوزنی کی تصنیف کی ہوئی مقدس کتابیں پڑھتے ہیں۔

ان خلوت گاؤں میں کچھ لوگوں کا تعلق اجواد ( خطیب ) سے ہوتا ہے، بعض ایسے معمولات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ِ جو صوفیوں یا راہبوں سے مختص ہوتے ہیں۔ اگرچہ خلوت گاہوں کی زندگی میں جسموں کو زیادہ سے زیادہ گھلایا جاتا ہے اور مرقبہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کوہ حرمون کے ایک جانب حاصبیہ کے نذدیک دروزیت کے گہوارے کے اوپر ایک البیاضہ موجود ہے۔ یہ نہایت قدیم خلوت گاہ ہے۔ یہاں ہر روز بیس آدمی تعلیم، مراقبہ اور نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ چار یا پانچ ممتاز ترین اجواد معلمی اور امامت کا فریضہ انجام دیتے ہٰیں۔ کوئی حلف نہیں اٹھایا جاتا ہے اور شادی کرنے کی کوئی پابندی نہیں بیرونی دنیا سے کامل انقطاع کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ عام طریقہ یہی ہے کہ خلوت گاہ میں رہنے والے لوگ اس زمین کی پیداوار پر زندگی گزارتے ہیں۔، جو خلوت گاہ کے ساتھ وقف ہوتی ہے۔ وہ ہاتھ سے محنت و مشقت بھی کرتے ہیں اور مقدس کتابوں کی نقلیں کرتے ہیں۔ جو نئے مومنوں کو مفت تحفہ دی جاتی ہیں، فروخت نہیں کی جاتی ہیں۔ سفر کے لیے جاتے ہیں تو پیدل چلتے ہیں یا حقیر سواری مثلاً سے کام لیتے ہیں۔ سرکاری ملازمت سے بطور خاص احتراز کیا جاتا ہے۔ جو لوگ مذہبی اعتقاد میں پکے ہوتے ہیں، وہ کسی سرکاری ملازم کے گھر جاکر کھانا نہیں کھاتے ہیں بلکہ۔ کسی نئے مذہب کے گھر بھی کھانا کھانے میں تامل کرتے ہیں۔

جو شخص اس دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہو۔ اس سے کڑے امتحان لیے جاتے ہیں اور مدت تک امیدواری کرنی پڑتی ہے۔ پھر مذہب میں داخلے کی رسم ادا ہوتی ہے۔ پھر اس پر لازم ہے کہ سخت اخلاقی ضوابط کا پابند ہو جائے۔ اس کی ہر حر کت میں عز و وقار نمایاں ہو۔ ہر قسم کے ناجائز فوائد سے احتراز کرے۔ اپنی زبان کو گالی سے آلودہ نہیں کرے شراب و تمباکو نہ پیئے۔ ان میں اعلیٰ درجے کے متقی لوگوں کو اجاوید کہا جاتا ہے

اجتماعات ترمیم

ان کے اجتماعات کے مقامات بہت ہی سادہ ہوتے ہیں۔ وہاں نہ کوئی بت یا مورتی ہوتی ہے، نہ میز، بینچیں۔ بیٹھنے کے لیے یا تو چٹائیاں پچھائی جاتی ہیں یا سفید یا سیاہ دھاریوں والی شطرنجیاں۔ سب ان پر مشرقی انداز میں بیٹھتے ہیں۔ جب معمر ترین عقال تالی بجاتا ہے تو عام لوگ اٹھ جاتے ہیں۔ خاص خفیہ مجلسیں جمعرات کی شام کو ایسے مقامات پر ادا کی جاتی ہے جو بالکل الگ تھلک ہوں۔ انھیں خلوہ کہتے ہیں۔ یہ مقامات یا تو پہاڑیوں کی چوٹیوں پر ہوتے ہیں یا ان کے اطراف میں۔ وہاں صرف خاص ہی لوگ جا سکتے ہیں۔ وہیں مذہبی کتابیں لائی جاتی ہیں۔ یہ سب قلمی ہوتی ہیں، جو مرور زمانہ سے خاصی میلی ہو گئی ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی چلی آئی ہیں۔ ان کتابوں پر کسی غیر کی نظر نہیں پڑ سکتی ہے اور ان کے مندر جات کوئی اجنبی کان سن نہیں سکتا ہے۔ پھر مولانا کے پرسرار مذہب پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔ مولانا سے مراد فاطمی خلیفہ الحاکم ہے۔ ان کتابوں میں جو ادبی ترکیبیں اور فنی اصلاحات ہیں وہ نیم خواندہ آدمیوں کے فہم کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔

مذہبی مجالس جمعرات کی شام الگ تھلگ عماتوں خلوت خانوں میں غیر نمایاں طور پر طریق پر منعقد کی جاتی ہیں۔ اس غرض سے عموماً پہاڑوں کی بلند چوٹیاں چنی جاتی ہیں۔ جو دیہات کے قریب ہوں۔ خلوت گاہوں میں قدیم ترین اور محترم ترین البیاضہ ہے جو حاصبیہ کے قریب ہے۔ جتنے مخطوطات تھے وہ 1834 میں مصری فوج کے ہاتھ لگے جو ابراہیم پاشاہ کی ماتحتی میں پہنچے تھی۔ ان مخطوطات سے پہلے مرتبہ علمی دنیا کو دروزی تعلیمات کی چھلک نظر آئی۔ دروزیوں کے متعلق چھان بیان کا کام سب سے پہلے ایک فرانسیسی دی ساسیSilvestre de sasy نے انجام دیے۔ جو اصل ماخذ پر مبنی تھا۔۔ یورپی ادبیات میں دروزیوں کا سب سے پہلے ایک ہنسپانوی یہودی بنبمین نے انجام دیے جو تطلیہ کا رہنے والا تھا۔ ( تقریباً 1129 )

جو عورتیں ضروری اوصاف سے متصف ہوجاتی ہیں۔ وہ بھی ان مجلسوں میں شریک ہوتی ہیں۔ ان کے لیے مردوں کے عقب میں بیٹھنے کے لیے ایک جگہ بنادی جاتی ہے۔ چونکہ یہ مجلسیں پراسرار طریق پر تاریکی میں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس لیے غیر مصدقہ الزمات کا سلسلہ شروع ہو گیا، مثلاً یہ کہ یہ کہ وہ لوگ بدمستی کی حرکتیں کرتے ہیں یا انسانوں کی قربانی دی جاتی ہے یا بچھڑے کی پوجا ہوتی ہے۔

معاشرہ ترمیم

 
ایک دروز شخص

سیاحوں کی متفرق روئداروں سے واضح ہوتا ہے کہ معینیوں اور شہابیوں کے دور میں دروزیوں کا مجلسی اور مذہبی نظام ایک خاص شکل اختیار کر چکا تھا اور اب تک باقی ہے۔ دروزی نہ تو رمضان کے روزے رکھتے ہیں، نہ حج کے لیے مکہ معظمہ جاتے ہیں اور نہ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ ان کے یہاں صرف ایک ہی شادی کا رواج ہے۔ طلاق و مفارقت میں خاصی سہولت ہے۔ مسلمانوں کے برعکس ہر فرد وصیت کے مطابق اپنی جائداد کسی کو بھی دے سکتا ہے۔ عام لوگ ہلکی سفید پگڑی باندھتے ہیں۔ شادی اور وفات پر تقریباًت کا رواج ہے۔ جن مجالسوں میں عام لوگ شریک ہوتے ہیں، وہاں عقال اخلاق کے ان اصو؛لوں کی تعلیم دیتے ہیں جو دنیا پھر کے نذدیک مسلم ہیں۔ چوری، زنا، شراب نوشی اور دروغ گوئی کی مخلافت پر زور دیتے ہیں۔ وہ حقہ نہیں پیتے، کھانا زیادہ نہیں کھاتے، غیبت نہیں کرتے، ان میں سے کوئی شخص گناہ کبیرہ کا مرتب ہو جائے۔ مثلاً چوری یا زنا تو اسے مذہبی معاشرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ خطیب اجتماعت یا سرکاری تقریباًت میں عبا کے نیچے سیاہی مائل لباس پہنتے ہیں۔ جس کی بنائ پر وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ نیز وہ سفید اون کی عبائیں پہنتے ہیں جن پر سفید دھاریاں ہوتی ہیں۔ اسلحہ ان کے لباس کا لازمی جزو ہے۔ پستولوں کی جوڑی اور خنجر ان کی پیٹی میں لگی رہتی تھی۔

تاریخ ترمیم

دروزیت کا گہوارہ لبنان کا جنوبی گوشہ تھا۔ یہاں اس مذہب کے پیروؤں نے وہ قومی خصائص پیدا کیے جن کی نمائش برابر جاری رہی۔ یعنی انتہاہی جماعتی وفا شعاری، اتحاد و یک جہتی کا اعلیٰ احساس، خود مختیاری کا زبردست جذبہ، دور مشکلات و مصاہب میں ثبات و استقامت۔ وہ جیسے جیسے ترقی کرتے گئے مختلف عرب قبیلے ان میں شامل ہوتے گئے، مثلاً تنوخ، معن، ارسلان اور جمبلاط۔ انہی قبیلوں سے مقامی سردار جاگیر دار پیدا ہوتے گئے۔ صلیبی جنگوں کے زمانے میں دروزی ضلع شوف کے مختیار بن گئے تھے۔ سنیوں اور دروزیوں کا اختلاف زیادہ تر عقائد پر تھا اور انھیں تخریب کا سرچشمہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ تعداد میں بھی کم تھے اور جغرافیائی لحاظ سے بھی اکھٹے رہتے تھے۔ سیاسی اعتبار سے بھی کسی فوری کارروائی کے خواباں نہیں تھے۔ لہذا الاشرف کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھے۔ الاشرف نے انھیں جبراً اپنا اہمنوا بنا لیاتھا۔ لیکن یہ ہمنوائی زیادہ دیر قائم نہیں رہی۔ 1300 میں جب الناصر کی فوج تار تاریوں کے مقابلے میں پسپا ہوئی تو دروزی تیر اندازوں نے انھیں ہراساں کیا۔ یہ وہ زامانہ تھا جب تار تاری حمص اور دمشق پر قابض ہو چکے تھے اور پورے شام کے لیے یہ خطرہ درپیش تھا۔

مملوکوں کی پالیسی یہ تھی کہ مختلف فرقوں کو ختم کر دیا جائے یا انھیں مسلمانوں میں جذب کر دیا جائے۔ مملوکوں کی یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوئی تاہم دروزی خاصے کمزور ہو گئے۔

لبنانیوں کے خلاف الناصر کی مہیں 1302، 1306 اور 1307 میں کسرانیوں کے خلاف بھیجیں۔ اس وقت کسروان کی حدود جبل صنین اور جبل الکیسا تک تھی۔ اس میں موجودہ زمانے کا المتن بھی شامل تھا۔ اس وقت وہاں مسیحی، دروزی، شعیہ اور نصیری رہتے تھے۔ اس وقت کے مشہور و ممتاز مسلمان عالم امام ابن تمییہ نے فتویٰ دیا کہ دروزی اور نصیری مسلمان نہیں ہیں اور ان کا درجہ مسیحوں سے بھی نیچے ہے۔ ان کا استحصال کردینا چاپہیے۔ خود امام ابن تمییہ نے بھی ان مہموں میں حصہ لیا۔ دروزیوں کے مقدم ابو اللمس کا مستقرر قیصر سلوان میں تھا۔ عین موقر میں فیصلہ کن جنگ جو 7031ئ میں ہوئی جس میں کسروانیوں کو تقریباً تباہ کر دیا گیا۔ دس ہزار لوگ مارے گئے۔ ان میں اکثریت دوزیوں کی تھی۔

کسرانیوں کی تباہی کہ نتیجے میں دروزیوں کا جوش و خروش کچل دیا گیا۔ حاصبیہ اور وادی الثہیم دروزیت کے گہوارے تھے۔ جہاں بنی شہاب اور بعقلین کے ماتحت تھے، ان ہی کے آس پاس شوف بنی معن کے تابع تھے جنھوں نے آگے چل کر لبنان کی سیاسی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔

ضلع کسران میں مملوکوں کے ماتحت مسلمانوں سے کٹ جانے والے گروہوں کی تعداد گھٹ گئی تھی۔ اس سے مارونیوں نے فائدہ اٹھایا اور سولویں سے اٹھارویں صدی کے دوران میں دروزیوں کے علاقہ میں دور دور تک پھیل گئے۔ دروزیوں کی طاقت فخر الدین ثانی کے دور میں نصف النیار تک پہنچ گئی تھی۔ یہ 1590 تا 1635 تک لبنان کا امیر رہا۔ اسی زمانے میں دروزیوں نے کوہ کارمل ( جبل مارا الیاس ) اور علاقہ جلیل میں اپنی نو آبادیاں قائم کیں۔ شوف سے نکل کر دروزی حوران ( شام ) پہنچے۔ کیوں کہ ان میں داخلی جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔ انیسویں صدی میں حوران جانے کا سلسلہ بڑھ گیا۔ ان میں وہ لوگ شامل تھے جو لبنان کے حالات سے مطمعین نہیں تھے اور 1860 میں قتل کے ہنگامہ کے باعث پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ حوران کے جس علاقہ میں یہ لوگ مقیم ہوئے اس جگہ کا نام جبل الدروز پڑھ گیا۔ لبنان اور شام دونوں جگہوں پر ان کا اثر و رسوخ اپنی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

ترکوں کے دور میں معن قبیلہ کا ستارہ چمک اٹھا۔ یہ خاندان اشوف میں آباد تھا اور بعقلین کو صدر مقام بنا لیا۔ انھوں نے لبنان پہنچنے کے بعد دروزیت اختیار کر لیا تھی۔ بنی معن نے شہابیوں سے جن کا تعلق قریش سے تھا اور انھوں نے بھی دورزیت اور مارونیت اختیار کرلی تھی شادیوں اور معاہدوں کے ذریعے متحد ہو گئے اور ان دونوں خاندانوں نے عہد جاگیر داری میں اہم کردار ادا کیا۔

معن خاندان کے اقتدر کی بنیاد فخر الدین اول نے ڈالی اور اس کا عروج اس کے پوتے فخر الدین ثانی ( 1590 تا 1635 ) کمال تک پہنچ گیا۔ یہاں تک فخر الدین کے پوتے احمد ( وفات 1697 ) میں یہ شمع گل ہو گئی۔ پھر معن کی جگہ شہابیوں نے لے لی اور وہ انیسویں صدی کے وسط تک سارے لبنان کے نظم و نسق کے ذمہ دار رہے۔ یہاں تک کہ مغربی طاقتوں کی ترکی کے خلاف ریشہ دوائیوں شروع ہوئیں اور انھوں نے لبنان پر ڈیرے ڈالیے۔ اس کے لیے یہاں کی مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کے نام پر یہاں فرانسیسی اور دوسری مغربی قوتوں نے دخل اندازی کی اور لبنان کی پٹی کو بالآخر شام سے علحیدہ کرکے ایک آزاد حکومت کی بنیاد رکھی۔ جس آئین میں مختلف اقلیتوں ان حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور ہر نسلی گروہ کو ان کی آبادی کے تناسب سے حکومت میں عہدے دیے گئے۔ اس طرح دروزیوں کی لبنان کی حکومت میں وزیر دفاع کا عہدہ دیا جاتا ہے۔

مارونیوں سے تعلقات ترمیم

دروزیوں کے مسلمانوں کے برعکس مارونیوں سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ دونوں قوموں کے لوگ پہلو بپہ پہلو مل جل کر رہتے ہیں۔ بعض اوقات دروزی مارونیوں کے کلسیاؤں میں چلے جاتے ہیں۔ مقدس پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ مشنری زور ڈالیں تو بتپسمہ بھی لے لیتے ہیں۔ وہ بے تکلف گرجا گھروں میں نمازیں ادا کرلیتے ہیں۔ مسیحی ہمسایوں کی تقریباًت میں دروزی بھی شریک ہوتے ہیں۔ دروزی اور مسیحی بعض مقامات کا دونوں یکساں احترام کرتے ہیں۔ اس طرح بعض درخت جو عہد قدیم سے مقدس سمجھے جاتے ہیں ان کا دروزی اور مسیحٰی یکساں احترام کرتے ہیں اور اس اپنے لباس کی چندیاں باندھ دیتے ہیں بعض اوقات کلیسا کی مدد کے لیے چندہ بھی دیتے ہیں۔

1440 میں دروزیوں اور مسیحوں کے نمائندوں نے پوپ کے نمائدے سے ملے اور دوستانہ مقاصد پر بات چیت کی۔

آبادی ترمیم

دروزیوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہوگی۔ ان کی اکثریت لبنان کے علاوہ شام، اسرائیل اور اردن میں آباد ہے۔ لبنان میں یہ زیادہ تر جبل لبنان کے اطراف میں آباد ہیں۔[6]


مسلمانوں سے تعلقات ترمیم

زیادہ تر دروز لوگ سوریہ اور لبنان میں آباد ہیں۔ یہ لوگ عمومًا خود کو مختلف المذہب پیش کرتے ہیں جو نہ مسلمان ہیں، نہ یہودی اور نہ ہی مسیحی۔ چوں کہ عمومًا دروزی عقائد اور طرز زندگی اسلام اور مسلمانوں سے مختلف ہے، اس لیے مسلم علما انھیں کافر قرار دیتے ہیں، حالاں کہ خود یہ لوگ اسلامی لیبل خود پر چسپاں کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ لوگ چوں کہ مسلمان، مسیحی اور یہودیوں اکثریتی آبادی کے بیچ رہتے ہیں، اس لیے کبھی کبھار یہ لوگ مساجد، گرجا گھر اور یہودی عبادت گھروں میں شامل بھی ہوتے ہیں اور احترام سے عبادت بھی کرتے ہیں۔ لبنان اور سوریہ میں کئی سرکاری عہدوں پر یہ لوگ فائز بھی ہیں۔ اسرائیل کی دفاعی فوج کا بھی یہ لوگ حصہ ہیں اور بہتر کار کردگی کے سبب یہ لوگ کئی تمغے بھی حاصل کر چکے ہیں۔

اس کے باوجود بھی کچھ مسلمان مذہبی حلقوں میں انھیں نہ صرف کافر بلکہ مرتد قرار دینے کا رجحان رہا ہے۔ جب کہ زمینی طور پر اہل عرب اور عام مسلمانوں سے ان کے کسی قسم کے تصادم کے واقعات پیش نہیں آئے ہیں۔ نہ ہی جدید طور پر کوئی غیر دروزی عام طور سے دروزیت اختیار کیا ہے۔ ان اصحاب کے خلاف، بہ طور خاص مرتد ہونے کی بات ابن تیمیہ نے اپنے دور میں کہی تھی، تو ممکن ہے کہ اس دور میں بیان حقیقت ہو، مگر جدید طور پر چوں کہ کوئی عام مسلمان دروزی نہیں بنتا، اس لیے یہ کہنا درست نہیں۔ ابن تیمیہ نے بہت سی ایسی باتیں اپنے دور میں ان لوگوں کے متعلق کہی ہیں، جن پر جدید دور میں عمل آوری ممکن نہیں۔ مثلًا ان کا یہ کہنا کہ دروزی عورتوں کو لونڈیاں باندیاں بنانا اور ان کے مالوں کو لوٹ لیا جانا یا پھر ان سبھی قتل عام کیا جانا انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے اپنے احوال کے پیش نظر جو کچھ ان کے متعلق کہا ہے وہ یہ ہے:

ان لوگوں کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ‘ بلکہ جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی انہیں جیسا کافر ہے۔ ان کا مقام اہل کتاب والا ہے نہ مشرکین والا بلکہ یہ گمراہ کافر ہیں۔ لہٰذا ان کا کھانا پینا جائز نہیں ‘ ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے اور ان کے مال (غنیمت کے طور پر) لے لئے جائیں۔ یہ مرتد زندیق ہیں۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی بلکہ جہاں ملیں انہیں قتل کیا جائے‘ ان سے پہرہ یا دربانی کی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ ان کے علماء اور (بظاہر) صوفیہ کو بھی قتل کرنا واجب ہے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ نہ کریں۔ ان کے گھروں میں ان کے ساتھ سونا‘ ان کے ساتھ چلنا‘ جب ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ‘ سب حرام ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جو حد اور سزا مقرر کی ہے‘ اسے نافذ نہ کریں۔[7]

اسلامی تاریخ میں کبھی بھی ان احکام یا ان باتوں پر عملی جامہ پہنائے جانے کا کوئی ٹبوت نہیں ملتا۔ کئی محققین ابن تیمیہ کے ان ہی شدت پسندوں تبصروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔[8]

مذہبی علامت ترمیم

دروز کی مذہبی پانچ رنگی ستارہ ہے۔

  • سبز عقل
  • سرخ نفس
  • زرد کلمہ
  • نیلا سابق (موت تک)
  • سفید لاحق (موت کے بعد)

مزید دیکھیے ترمیم

حمزہ بن علی بن احمد

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب "The+Druze+are+an+ancient+sect+within+islam۔+The+Golan+ones+are+part+of+a+Syrian+Druze+community+that+numbers+700000.+Another+250000+live+in+Lebanon+and+about+100000+in+Israel+proper"&dq="The+Druze+are+an+ancient+sect+within+islam۔+The+Golan+ones+are+part+of+a+Syrian+Druze+community+that+numbers+700000.+Another+250000+live+in+Lebanon+and+about+100000+in+Israel+proper" "The Economist"۔ 390 (8618–24)۔ 2009: 49۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2011 
  2. Statistical abstract of Israel – Population by religion. 2010
  3. International Religious Freedom Report، US State Department، 2005 ۔
  4. Druze Traditions، Institute of Druze Studies، 14 جنوری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2012  ۔
  5. "Druze Population of Australia by Place of Usual Residence (2006)"۔ Australian Bureau of Statistics۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2010 
  6. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر، فلپ حتی۔ تاریخ شام
  7. الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
  8. ""Join the Caravan": The Ideology of Political Authority in Islam from Ibn Taymiyya to Boko Haram in North-Eastern Nigeria"۔ 15 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2019