مکحول دمشقی
مکحول الدمشقیؒ تابعین میں سے ہیں۔
مکحول دمشقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | مكحول الشامي الهذلي |
پیدائش | 1 ہزاریہ کابل |
تاریخ وفات | اگست731ء (30–31 سال)[1] |
کنیت | أبو عبد الله , و يقال : أبو أيوب , و يقال :أبو مسلم |
لقب | عالم الشام |
عملی زندگی | |
طبقہ | الطبقة الخامسة ، من صغار التابعين |
نسب | الشامي الهذلي |
ابن حجر کی رائے | ثقة فقيه ، كثير الإرسال ، مشهور |
استاد | رجاء بن حيٰوة |
نمایاں شاگرد | علاء بن حارث |
پیشہ | مصنف [2]، محدث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیممکحول نام،ابو عبد اللہ یا ابو ایوب کنیت ہے، ان کے نسب اور وطن کے بارہ میں روایت مختلف ہیں،ابن سعد کا بلی لکھتے ہیں [3]ابن حجر نے کئی روایتیں نقل کی ہیں،بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عجمی النسل تھے اوران کے والد کا نام سہراب تھا، بعض سے ثابت ہوتا ہے کہ مصری تھے اور بعض سے نتیجہ نکلتا تھا کہ ہذلی یعنی عرب تھے۔ [4]
لیکن آخری دوروایتیں اس معنی میں قطعاً غلط ہیں کہ وہ نسلاً ہذلی یا مصری تھے نسلاً وہ بلاشک وشبہ عجمی تھے،ہذلی اورمصری اس لیے مشہور ہیں کہ وہ کچھ دنوں ایک ہذلی کی غلامی میں رہے تھے اور ایک عرصہ تک مصر میں قیام رہاتھا۔ اس باب میں امام نووی کا بیان زیادہ قرین قیاس اورصحیح ہے، انھوں نے ان کو عجمی النسل اورکابل الموطن لکھا ہے؛چنانچہ ان کی روایت کے مطابق ان کا نسب نامہ یہ ہے مکحول بن زید یا ابن ابی مسلم بن شاذل بن سند بن شروان بن یروک بن یغوث بن کسری کابلی دمشقی [5] اس بیان سے مختلف روایتوں میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے کہ وہ نسلاً عجمی،وطناً کابلی اور اقامۃً دمشقی تھے۔ ان کی ابتدائی تاریخ یہ ہے کہ وہ شروع میں عمرو بن سعید بن العلاص کے غلام تھے ،پھر انھوں نے ان کو ایک ہذلی شخص کو دے دیا تھا، اس دوسری غلامی کی وجہ سے ان کی غلامی کے انتساب میں دوبیانات ہو گئے ہیں،ایک یہ کہ وہ عمروبن سعید کے غلام تھے،اوردوسرا یہ کہ ہذلی کے غلام تھے اور دونوں صحیح ہیں،ان کی غلامی کی ابتدا عمرو بن سعید سے ہوئی ،جیسا کہ خود ان کا بیان ہے کہ میں عمروبن سعید بن العاص کا غلام تھا،پھر انھوں نے مجھے ایک ہذلی کو دے دیا [6] عقلی قیاس بھی یہی ہے؛کیونکہ عمرو کے والد سعید نے عہد عثمانی میں کابل کے بعض سرحدی علاقوں کو فتح کیا تھا [7] قیاس یہی ہے کہ انہی معرکوں میں وہ سعید کے غلام تھے۔(تذکرہ الحفاظ:1/95)پھر وراثتاً ان کے لڑکے کو ملے ہوں گے۔ تحصیل علم کے لیے دنیائے اسلام کا سفر مسلمانوں کی غلام نوازی اوران کے فیضِ تربیت سے ان کے غلام غلامی کی پستی سے نکل کر کمال کے جن مدارج پر پہنچے،مکحول اس کی ایک روشن مثال تھے،ان کا آغاز غلامی سے ہوا اور آخر میں وہ شام کی مسند علم پر فائز ہوئے،پھر غلامی سے آزادی کے بعد انھوں نے ساری دنیائے اسلام کے تمام علمی مرکزوں کا سفر کرکے تحصیلِ علم کی،ان کا بیان ہے کہ جب میں آزاد ہوا، اس وقت مصر کا سارا علم میں نے سمیٹ لیا اور اس وقت تک میں نے وہاں سے باہر قدم نہیں نکالا ،جب تک اپنے خیال کے مطابق وہاں کا سارا علم سن نہ لیا۔ مصر کے علمی مخزن کو کھنگالنے کے بعد مدینہ آئے،پھر یہاں سے عراق آگئے،ان دونوں مقاموں کے تمام علمی سرچشموں سے سیراب ہونے کے بعد شام کا سفر کیا اوریہاں کے علما اربابِ کمال سے استفادہ کیا،غرض انھوں نے علم کی تلاش وجستجو میں دنیائے اسلام کا چپہ چپہ چھان مارا، وہ خود بیان کرتے تھے کہ میں نے علم کی تلاش میں تمام روئے زمین کا چکر لگایا۔ [8]
فضل وکمال
ترمیمان کے اس ذوق وشوق ،اس تلاش وجستجو اوراس مشقت نے انھیں علم کے اس ذروہ کمال تک پہنچا دیا تھا،جہاں ان کے کم معاصر پہنچ سکے تھے،امام زہری کہتے تھے کہ علما صرف تین ہیں،ان تین میں ایک نام مکحول کا لیتے تھے [9]ابن یونس کا بیان ہے کہ وہ فقیہ ورعالم تھے،ان کی توثیق پر سب کا اتفاق ہے،ابن عمار کہتے ہیں کہ وہ اہل شام کے امام تھے [10] انھیں حدیث اورفقہ دونوں میں درجہ امامت حاصل تھا۔
شیوخ
ترمیمانھوں نے ہر خرمن سے خوشہ چینی کی تھی،اس لیے ان کے شیوخ کی فہرست نہایت طویل ہے،کوئی ملک ان سے خالی نہیں تھا،ان میں صحابہ کی بھی خاصی تعداد تھی،صحابہ میں انھوں نے انس بن مالکؓ،ابوہندواریؓ،واثلہ بن اسفعؓ، ابوامامہؓ،عبد الرحمن بن غنمؓ، ابو جندل برسہیل وغیرہ سے براہ راست سماع کیا تھا [11]اور ابی بن کعبؓ،ثابانؓ،عبادہ بن ثابت ،ابوہریرہؓ،ابوثعلبہ خشنیؓ، اورعائشہ صدیقہؓ سے مرسل روایات کی ہیں [12] ممتاز تابعین میں سعید بن مسیب،مسروق،جبیر بن نضیر،کریب،ابو مسلم،ابو ادریس خولانی، عروہ بن زبیر، عبد اللہ بن محیریز،عینیہ بن ابی سفیان درادکاتب ،مغیرہ ،کثیر بن مرہ اورام الدرداء وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ [13]
تلامذہ
ترمیمان کے تلامذہ کا دائرہ بھی نہایت وسیع تھا،ان میں سے بعض ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں امام زہری،حمید الطویل،محمد بن عجلان،محمدبن اسحٰق ،عبد اللہ بن علاء،سالم بن عبد اللہ،محاربی موسیٰ بن یسار،امام اوزاعی،سعید بن عبد العزیز،علاء بن حارث،ثور بن یزید،ایوب بن موسیٰ،محمد بن راشد مکحولی،محمد بن ولید زبیدی،برد بن سنان ،عبد اللہ بن عوف،یحییٰ بن سعید انصاری، اسامہ بن زید لیثی،نخیر بن سعد،صفوان بن عمرو اور اثابت بن ثوبان وغیرہ۔ [14]
فقہ وفتاویٰ
ترمیمحفظ حدیث کے ساتھ وہ فقہ کے بھی امام ومجتہد تھے،ابوحاتم کہتے تھے کہ میں نے شام میں مکحول سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا،سعید بن عبد العزیز انھیں امام زہری سے بڑا فقیہ مانتے تھے،انھیں افتاء میں خاص مہارت اور بصیرت حاصل تھی،سعید بن عبد العزیز کا بیان ہے کہ ان کے زمانہ میں ان سے زیادہ افتاء میں بصیرت کسی کو حاصل نہ تھی۔
احتیاط
ترمیملیکن وہ فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے،اگر اپنی رائے سے وہ کسی مسئلہ کا جواب دیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے،یہ میری رائے ہے،جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ [15]
فقہ وفتاویٰ
ترمیمحفظ حدیث کے ساتھ وہ فقہ کے بھی امام ومجتہد تھے،ابو حاتم کہتے تھے کہ میں نے شام میں مکحول سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا،سعید بن عبد العزیز انھیں امام زہری سے بڑا فقیہ مانتے تھے،انھیں افتاء میں خاص مہارت اوربصیرت حاصل تھی،سعید بن عبد العزیز کا بیان ہے کہ ان کے زمانہ میں ان سے زیادہ افتاء میں بصیرت کسی کو حاصل نہ تھی۔
احتیاط
ترمیملیکن وہ فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے،اگراپنی رائے سے وہ کسی مسئلہ کا جواب دیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے،یہ میری رائے ہے،جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ [16]
تصانیف
ترمیمان کے فقہی کمال کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ تالیف وتصنیف کا آغاز بھی نہ ہوا تھا،انھوں نے فقہ میں دو مستقل کتابیں تالیف کی تھیں۔(1)کتاب السنن اور (2)کتاب المسائل۔ [17]
انفاق فی سبیل اللہ
ترمیمعلمی کمالات کے ساتھ وہ اخلاقی فضائل سے بھی آراستہ تھے،انفاق سبیل اللہ اورجہاد فی سبیل اللہ ان کا نمایاں وصف تھا،انھیں جو کچھ ملتا سب خدا کی راہ میں صرف کردیتے تھے،سعید بن عبد العزیز کا بیان ہے کہ مکحول کا وظیفہ مقرر تھا،اس کو دشمنان خدا کے لیے جہاد میں صرف کرتے تھے [18] ایک مرتبہ ان کو دس ہزار اشرفیوں کی خطیر رقم ملی اس کو بھی انھوں نے اسی راہ میں صرف کیا اورایک مجاہد کو ایک گھوڑے کی قیمت پچاس اشرفیاں دیتے تھے۔ [19]
ایک شبہ کا ازالہ
ترمیممکحول کے متعلق عام شہرت تھی کہ وہ قدری تھے اوراس کی تائید میں بعض روایات بھی ملتی ہیں،لیکن بہ روایات صحیحہ ان کا دامن اس عقیدہ فاسد سے پاک تھا،امام اوزاعی کا جو ان کے تلامذہ میں تھے بیان ہے کہ جہاں تک سنا گیا ہے،تابعین میں دو شخص حسن بصری اورمکحول کے خیالات قدری تھے، لیکن میں نے ان کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ شہرت غلط ہے [20] ان کے دوسرے تلمیذ سعید بن عبد العزیز بھی اس عقیدہ سے ان کی برأت کی شہادت دیتے تھے۔ [21]
وفات
ترمیمابن سعد کی روایات کے مطابق 112ھ 113یا 118ھ میں وفات پائی۔ [22]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ناشر: او سی ایل سی — وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/100463009/ — اخذ شدہ بتاریخ: 25 مئی 2018
- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/139162267 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ (ابن سعد،ج7،ق اول،ص161)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/90)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/113)
- ↑ (ابن سعد،ج7،ق2،ص161)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:342)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/95)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/95)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/251)
- ↑ (تہذیب الاسماء،ج1،ق2،ص 113)
- ↑ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق 2،ص 113)
- ↑ (تہذیب الاسماء،ج 1ق2، ص113)
- ↑ (تہذیب الاسماء،ج اول،ص114، ق2)
- ↑ (تہذیب :10/291)
- ↑ (تہذیب :10/291)
- ↑ (شذرات الذہب:1/146)
- ↑ (فہرست ابن ندیم :318،طبع مصر)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/96)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/291)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/96)
- ↑ (ابن سعد،ج7،ق2،ص161)