امتحان بے گناہی
پرانے زمانے میں جرم یا بے گناہی جانچنے کے لیے ملزموں کو اکثر ایسے امتحان سے گزارا جاتا تھا جس میں جان جانے کا شدید خطرہ ہوتا تھا۔ مختلف ممالک میں اس کے مختلف طریقے ہوا کرتے تھے۔ اگر ملزم کی جان بچ جاتی تھی یا اس کے زخم جلد ٹھیک ہو جاتے تھے تو اسے خدا کی طرف سے معصوم کی مدد قرار دیا جاتا تھا۔ موت ہونے کی صورت میں یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ خدا نے اسے اس کے جرم کی سزا دے دی ہے۔ اسے Judicium dei یا خدا کا انصاف قرار دیا جاتا تھا۔ چار ہزار سال پرانے Ur-Nammu کے قانون میں اور پونے چار ہزار سال پرانے حمورابی کے قانون میں بھی اس سے مشابہ مثالیں موجود ہیں۔
آزمائشوں کی اقسام
ترمیملڑنے کی آزمائش
ترمیمجرمنی میں اگر انصاف کے لیے کوئی شہادت دستیاب نہ ہوتی تھی تو عدالت فیصلہ دیتی تھی کہ آپس میں لڑ کر خود فیصلہ کر لو۔ یہ نظام سولہویں صدی تک جاری رہا۔
زہر کی آزمائش
ترمیمنائجیریا اورمغربی افریقہ کے کچھ حصوں میں ملزم کو زہریلے بیج (Calabar bean) کھا کر اپنی معصومیت ظاہر کرنی پڑتی تھی۔ جس کو الٹی آ جاتی تھی وہ بچ جاتا تھا۔ مرنے والا مجرم سمجھا جاتا تھا۔
مڈغاسکر میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے Tangena کا زہریلا بیج کھلایا جاتا تھا۔ اندازہ ہے کہ 1828ء سے 1861ء تک ہر سال تین ہزار لوگ اس سے مر گئے۔
آگ کی آزمائش
ترمیمآگ سے بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ملزم کو آگ میں سے گذرنا پڑتا تھا یا گرم لوہے پر چلنا پڑتا تھا یا کوئی گرم چیز تھامنی پڑتی تھی۔ عام طور پر تین دن بعد پادری پٹی ہٹا کر زخم کا معائینہ کرتا تھا اور بتاتا تھا کہ خدا کی مدد سے بے گناہ کے زخم ٹھیک ہو رہے ہیں یا مجرم کے زخم سڑ رہے ہیں اور اسے مار دیا جائے یا ملک بدر کر دیا جائے۔ کبھی کبھی الزام لگانے والے کو بھی اس عمل سے گذرنا پڑتا تھا۔
پانی کی آزمائش
ترمیمابلتے پانی کی آزمائش
ترمیمابلتے پانی، گرم تیل یا پگھلے ہوئے سیسے میں ہاتھ ڈال کر اندر موجود پتھر نکالنا بھی آگ سے بے گناہی ثابت کرنے کا ایک طریقہ تھا۔
بادشاہ Athelstan نے قانون بنایا تھا کہ ابلتے پانی میں سے پتھر نکالنے کے طریقے میں اگر مجرم پر صرف ایک الزام ہے تو پانی کی گہرائی کلائی تک ہونی چاہیے۔ لیکن اگر ملزم پر تین الزامات ہوں تو ابلتے پانی کی گہرائی کہنی تک ہو گی۔ یہ کارروائی چرچ میں راہبوں کی موجودگی میں ہو گی۔ بارہویں صدی تک کیتھولک چرچ میں اس پر عمل ہوتا رہا۔
ٹھنڈے پانی کی آزمائش
ترمیمٹھنڈے پانی سے بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ملزم کو ہاتھ پاوں باندھ کر تین بار پانی میں ڈبویا جاتا تھا۔ ڈوب جانے والا مجرم اور تیرنے والا بے قصور گردانا جاتا تھا۔
سولہویں اور سترہویں صدی میں جادوگرنیوں کے خلاف مہم چلی۔ لیکن اس دفعہ ڈوبنے والے کو بے گناہ اور تیرنے والے ملزم کو گناہ گار قرار دیا گیا۔ ڈوبنے والا خود ہی مر جاتا تھا جبکہ تیرنے والے کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی جاتی تھی۔
صلیب کی آزمائش
ترمیمصلیب کی مدد سے بے گناہی ثابت کرنے کے لیے الزام لگانے والا اور ملزم دونوں ہاتھ پھیلا کر صلیب کی دو جانب کھڑے ہو جاتے تھے، جس نے تھک کر ہاتھ پہلے گرا دیے وہ ہار جاتا تھا۔ اس طرح جان لیوا ڈویل سے بچا جاتا تحا۔
نگلنے کی آزمائش
ترمیمفرانکونی قانون (Franconian law) کے تحت ملزم کو خشک روٹی اور پادری کی طرف سے مبارک پنیر دیا جاتا تھا۔ اگر ملزم کو اسے نگلنے پر دشواری ہو تو وہ مجرم سمجھا جاتا تھا۔
کھولتے تیل کی آزمائش
ترمیمکھولتے ہوئے تیل کی آزمائش بھارت کے دیہاتوں، [1] مغربی افریقہ کے کچھ حصوں اور ٹوگو میں کی جاتی ہے۔[2] اس آزمائش کے دو اہم متبادل طریقے ہیں۔ ایک طریقے میں ملزمان کو کھولتے ہوئے تیل سے کسی چیز کو نکالنے کا حکم دیا جاتا ہے اور اس سے انکار کرنے والوں کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔[3] دوسرے طریقے میں مدعی اور ملزم دونوں کو کھولتے ہوئے تیل سے ایک چیز کو نکالنے کا حکم دیا جاتا ہے، جس شخص کا ہاتھ محفوظ رہتا ہے اسے بے گناہ قرار دے دیا جاتا ہے۔[4]
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی ربط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Men undergo trial by boiling water over stolen food"۔ The Irish Independent۔ Dublin۔ 19 ستمبر 2006
- ↑ "Justice". Taboo. Season 2. Episode 1. 6 October 2003. National Geographic. Archived from the original on 2018-12-24. https://web.archive.org/web/20181224223411/http://www.tv.com/shows/taboo/justice-931067/.
- ↑ "Men undergo trial by boiling water over stolen food". The Irish Independent (Dublin). 19 September 2006.
- ↑ "Justice". Taboo. Season 2. Episode 1. 6 October 2003. National Geographic.