مولانا امیر اللہ قلندر سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔


مولانا امیر اللہ قلندر
ذاتی
پیدائش(1249ھ بمطابق 1833ء)
شنکیاری مانسہرہ
وفات(شوال 1337ھ بمطابق جون 1919ء)
مذہباسلام
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممانسہرہ
دورانیسویں بیسویں صدی
پیشروشمس العارفین

ولادت

ترمیم

امیر اللہ قلندر کی ولادت 1249ھ بمطابق 1833ء کو شنکیاری ضلع مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

ترمیم

امیر اللہ قلندر نے ہندوستان کے مختلف مدارس سے علوم متداولہ کی تعمیل کی اور سند فراغت کے حصول کے بعد لاوہ میں مدرس مقرر ہوئے اور اسی مدرسہ میں قاضی نور عالم مانسہروی سے تعلقات استوار ہوئے۔

سیال شریف کی حاضری

ترمیم

قاضی نور عالم مانسہروی جب پہلی دفعہ سیال شریف حاضر ہوئے تو اپنے دوست مولانا امیر اللہ قلندر کو بتائے بغیر سیال شریف تشریف لے گئے تھے۔ جس کے باعث آپ کی پریشانی لابدی تھی۔ جب قاضی نور عالم واپس ہوئے تو اپنا مدعا اور سفر کے حالات و واقعات نیز خواجہ سیالوی کے لطف و کرم کی داستان بیان کی۔ مولانا امیر اللہ قلندر کا عقیدہ اولیاء اللہ کی بابت اچھا نہ تھا۔ لہذا باہم بحث و تمحیص کا سلسلہ چل نکلا۔ خواجہ سیالوی سے اجازت و خلافت کے حصول کے بعد جب قاضی نور عالم عازم سیال شریف ہوئے تو مولانا امیر اللہ قلندر سے یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ میں اپنے شیخ طریقت کی قدم بوسی کے لیے سیال شریف جا رہا ہوں۔ جب سیال شریف حاضر ہوئے تو خواجہ سیالوی نے مولانا امیر اللہ قلندر کے بارے دریافت فرمایا کہ کیسے آدمی ہیں؟ قاضی نور عالم نے ان کے مزاج اولیاء اللہ سے بغض و مخالفت اور مناظروں وغیرہ کے بارے میں پوری تفصیل عرض کی۔ خواجہ سیالوی نے مسکرا کر فرمایا مولوی کو میرا سلام کہہ دینا۔ قاضی نور عالم چند یوم سیال شریف قیام کر کے جب لاوہ پہنچے تو مولانا امیر اللہ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور بڑے ذوق و شوق اور ارارت و محبت کے ساتھ خواجہ سیالوی کے متعلق پوچھا۔ قاضی نور عالم نے آپ کی مجلس کا ذکر کیا اور آپ کا سلام پہنچایا۔ سلام کا سن کر مولوی امیر اللہ قلندر پر سکتہ اور گریہ طاری ہو گیا۔ آپ تمام رات نہ سوئے۔ جب دیکھا کہ دوسرے احباب سو گئے ہیں تو چپکے سے بستر باندھا اور سیال شریف روانہ ہو گئے۔ قاضی نور عالم حسب معمول تہجد کے لیے بیدار ہوئے تو مولانا امیر اللہ قلندر کو غائب پایا۔ کافی تلاش و جستجو کی مگر بے سود۔ ادھر مولانا امیر اللہ قلندر کئی دنوں کا سفر پیدل طے کر کے بوقت اشراق سیال شریف پہنچ گئے۔

بیعت و خلافت

ترمیم

خواجہ سیالوی صحن مسجد میں جلوہ افروز تھے اور حاجت مند لوگ آس پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا امیر اللہ دور سے بھی زیارت کا لطف اٹھانے لگے۔ جب خواجہ سیالوی مولانا امیر اللہ کی طرف نگاہ کرم اٹھاتے تو آپ نظریں نیچی کر لیتے۔ اتفاق سے دربار شریف کا حجام ادھر آنکلا۔ حجام سے اپنی ریش سر اور ابرو کے بال صاف کرائے اور غسل کیا۔ قبل از عصر خواجہ سیالوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا تم ہی مولوی امیر اللہ ہو۔ عرض کیا مولوی نہ غلام بننے حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے بیعت کیا اور پشت پر تھپکی دے کر کہا مولوی مست ہو جاؤ۔ مولوی امیر کی طبیعت الٹ گئی اور فنا فی اللہ کا مقام حاصل ہو گیا۔

روحانی مقام

ترمیم

امیر اللہ نے اپنی زندگی خواجہ سیالوی کے قدموں میں بسر کی۔ وطن واپس جانے کا ہوش نہ رہا۔ جہاں چاہتے پھرتے، نماز روزہ کی پابندی سے آزاد ہو گئے۔ صرف نسوار رکھتے تھے۔ دربار شریف کے درویش آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کو قلندر کے منصب پر فائز سمجھتے تھے۔ خواجہ شمس الدین سیالوی فرماتے تھے کہ میرے دو مجذوب قلندر ہیں۔ ان کا مقابلہ مست ہاتھی بھی نہیں کر سکتا۔ ایک مولانا امیر اللہ قلندر مانسہروی اور دوسرے سائیں سہیلی سرکار مظفرآبادی۔

مقبولیت

ترمیم

امیر اللہ قلندر کے ارد گرد مخلوق کا ہجوم رہتا۔ سلانوالی اور جھنگ کے کافی لوگ آپ کے پاس آتے اور دلی مرادیں حاصل کرتے تھے۔ آپ اپنی زبان مبارک سے جو بات نکالتے الله تعالی پوری کر دیتا۔ جھنگ کا ایک رئیس آدمی اپنی جوان بیوی کو ہمراہ لے کر سیال شریف آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر نرینہ اولاد کے لیے دعا کا خواستگار ہوا۔ مولانا امیر اللہ قلندر نے ایک سادہ کاغذ پر تعویذ لکھ کر ان کے حوالے کیا۔ سال کے بعد وہ میاں بیوی حاضر خدمت ہوئے تو ایک حسین لڑکا ان کی گود میں تھا۔ انھوں نے عرض کیا اللہ تعالی نے آپ کی دعا اور برکت تعویذ سے بارہ سال کے بعد یہ لڑکا عطا کیا ہے۔ آپ نے بچے کے سرپر ہاتھ پھیرا۔

مانسہرہ میں قیام

ترمیم

خواجہ شمس الدین سیالوی کے وصال شریف کے بعد کچھ عرصہ سیال شریف مقیم رہے۔ بعد ازاں قاضی نور عالم کے پاس مانسہرہ آ گئے۔ آپ کے بھتیجے آپ کو اپنے گھر لے جانے کے لیے بڑے جتن کرتے رہے لیکن آپ ان کے ساتھ نہ گئے اور بقیہ ساری عمر اپنے برادر طریقت اور مخلص دوست قاضی نور عالم کے پاس گزاری۔ مولانا امیر اللہ قلندر خان بہادر محمد حسین نمبردار کی مسجد کے صحن میں رہتے تھے۔

لباس و خوراک

ترمیم

مولانا امیر اللہ صرف تہبند باندھتے تھے۔ مسجد کے ایک درخت کے نیچے ڈیرہ تھا۔ آپ چاول بہت پسند فرماتے تھے۔

وصال

ترمیم

مولانا امیر اللہ کو چاول کے کثرت ستعمال کے باعث گردوں کی تکلیف ہوئی۔ دو سال اس موذی مرض میں مبتلا رہے۔ آپ کا وظیفہ یاحی یاقیوم تھا۔ جب ڈاکٹر شیرباز خان مرحوم نے آپ کے گردے کا آپریشن کیا تو کلورو فارم سونگھانے سے آپ پر بے ہوشی واقع نہ ہوئی۔ آپ نے فرمایا : یہ دوا مجھے بے ہوش نہیں کر سکتی۔ آپ آپریشن کریں۔ آپ نے یاحی یا قیوم کا وظیفہ ورد زبان رکھا اور آپریشن کامیاب رہا۔ آخر وقت مقررہ گیا۔ قاضی غلام نبی کو بلا کر فرمایا : آپ کے والد ماجد قاضی نور عالم نے آپ کو سب کچھ ودیعت فرمایا ہے۔ میں بھی اپنا سب کچھ آپ کو عطا کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں جنت میں نہ جاوں گا جب تک آپ کو جنت میں نہ لے جاؤں۔ یہ فرمایا اور یاحی یاقیوم کا ورد کرتے ہوئے انتقال کر گئے۔ آپ کا وصال شوال 1337ھ بمطابق جون 1919ء کو ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ قاضی نور عالم نے پڑھائی۔ آپ کی آخری آرام گاہ مانسہرہ کے قبرستان میں ہے۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفہ 490 تا 493