اطلاع علی الغیب بھی عموما علم غیب کا دوسرا نام ہے علما اسلام میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ بلاواسطہ‘ بلاتعلیم اور ذاتی علم غیب کی غیر اللہ سے نفی کی گئی ہے۔ اور بالواسطہ‘ بذریعہ وحی والہام اور عطائی علم غیب کا غیر اللہ کے لیے نفی ہے اور اطلاع علی الغیب انباء الغیب اور اظہار الغیب کا ثبوت ہے ‘ مرادعلم غیب کی نفی ہے اور غیب کی خبروں کا ثبوت ہے
جیسا کہ ڈاکٹر محمد اسلم تفسیر روح القرآن میں لکھتے ہیں
"یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کو علم کا بحرِزخار بخشا ہے۔ اس معاملے میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ لیکن اس علم کو قرآن کریم نے اطلاع علی الغیب یا اظہار علی الغیب کے نام سے تو یاد کیا ہے علم غیب کے نام سے یاد نہیں کیا کیونکہ علم غیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ذاتی ہوکسی ذریعے اور واسطہ سے نہ ہو۔ کوئی اس کا عطا کرنے والا نہ ہو اور دوسری یہ بات کہ کلی ہو جزئی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ جو علم دینا چاہیں جس کی ضرورت سمجھیں وہ عطا فرمادیں لیکن اپنے طور پر علم ِ غیب کے خزانوں تک رسائی یہ صرف اللہ کی شان ہے "[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر روح القران، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی،سورہ آل عمران آیت 179