انتقام کی آگ 1971ء کی پاکستانی فلم ہے[1]۔ اسے 3 دسمبر 1971 کو کوئٹہ کے دو سینما گھروں ریگلی اور ڈیلائٹ میں بیک وقت نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ فلم 1970 میں کوئٹہ کے چند جوانوں نے اپنے فلمی شوق کی تسکین کے لیے بنائی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار، فلم ساز اور کہانی نگار عبد الرزاق (اے آر خان ) تھے، جو تا دم حیات کوئٹہ میں رہتے رہے، 3 مارچ 2021ء کو وفات پاگئے

انتقام کی آگ
ہدایت کارعبد الرزاق (اے آر خان)
پروڈیوسرعبد الرزاق (اے آر خان)
تحریرعبد الرزاق (اے آر خان)
ستارےاے آر خان، نورینہ، چنگیزی، استاد محمد شفیع، آفتاب خواجہ، چندا، محمد یوسف، محمد حسین اور خدائے رحیم شامل تھے
موسیقیخدائے رحیم پریشان
تاریخ نمائش
3 دسمبر 1971
ملکپاکستان
زباناردو

کہانی

ترمیم

اس فلم کی کہانی لورالائی کے ایک باہمت سپوت شیر خان کے حالات زندگی پر مبنی تھی۔

موسیقی

ترمیم

اس فلم کی موسیقی خدائے رحیم پریشان نے مرتب کی تھی ۔ اس کے نغمات عطا شاد نے تحریر کیے تھے۔ فلم میں چار نغمات شامل تھے۔۔ جن کے بول تھے

  • 1- دل کے ویرانے
  • 2- یہ بھیگی بھیگی رات
  • 3- ہائے میرا دل
  • 4- غم محبت، غم زمانہ، ہزار تیر، ایک دل نشانہ

ان چار نغمات میں سے پہلے تین نکہت سیما کی آواز میں ریکارڈ ہوئے تھے جبکہ چوتھا نغمہ افغانستان کے مشہور گلوکار ناشناس نے گایا تھ۔ ناشناس ان دنوں کابل، افغانستان میں رہتے تھے۔ فلم ساز اے آر خان اور موسیقار خدائے رحیم پریشان نے ان کی آواز میں نغمے کی ریکارڈنگ کے لیے افغانستان گئے۔جب ان کی ملاقات ناشناس سے ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وہ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ نغمہ ریکارڈ نہیں کروا سکتے۔ادارہ ثقافت کے ڈائریکٹر نے کوئی اعتراض نہ کیا تو اگلے روز کابل ریڈیو اسٹیشن کے سٹوڈیو میں ناشناس کی آواز میں عطا ناشاد کا لکھا ہوا اور خدائے رحیم کا کمپوز کیا ہوا نغمہ ریکارڈ ہوا۔ اس نغمے کی ریکارڈنگ میں کابل کے مشہور سازندوں نے حصہ لیا۔ فلم میں یہ نغمہ خدائے رحیم پر عکس بند ہوا، جنھوں نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔ اس نغمے کے بول تھے „غم محبت، غم زمانہ، ہزار تیر ایک دل نشانہ۔‘

اداکار اور دیگر ٹیم

ترمیم

فلم انتقام کی آگ میں جن اداکاروں نے حصہ لیا تھا ان میں مرکزی کردار اے آر خان ، نورینہ ، چنگیزی ، استاد محمد شفیع ، آفتاب خواجہ ، چندا ، محمد یوسف ، محمد حسین اور خدائے رحیم شامل تھے۔ فلم کی اندرون خانہ عکس بندی اے سعید نے کی تھی اور بیرونی مناظر کی عکاسی میں ان کا ساتھ ایف ماما نے دیا تھا۔فلم کے بینرز اور ہورڈنگز فلم میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے استاد محمد شفیع نے تیار کیے تھے، جو کوئٹہ کے مشہور مصور تھے۔

ریلیز

ترمیم

فلم تیار ہوئی اسے بدقسمتی عید الفطر پر اس سال 20 نومبر کو ریلیز کرنے کے لیے کوئی سینما نہیں مل سکا اور یہ فلم 3 دسمبر 1971 کو عین اس دن کوئٹہ کے سینما گھروں ریگل اور ڈیلائٹ میں نمائش کے لیے پیش ہوئی، جب پاکستان اور انڈیا کی جنگ میں مغربی پاکستان کا محاذ جنگ کھلا تھا۔ لوگوں نے فلم کو دیکھنے کے لیے سینما گھروں کا رخ کیا اور اپنے شہر میں بننے والی فلم کو سراہا بھی مگر پاکستان اور انڈیا کی جنگ کی وجہ سے اسے صرف دن کے اوقات میں دکھایا جا سکا کیونکہ رات کو بلیک آؤٹ ہوتا تھا۔ دو ہفتے بعد فلم کی نمائش روک دی گئی۔ فلم کو کراچی بھیجا گیا تاکہ وہاں اس کی نمائش ہو سکے مگر یہ فلم وہاں بھی ڈبوں میں بند پڑی رہ گئی۔

حوالہ جات

ترمیم