انجیرہ
ضلع سوراب میں انجیرہ کے مقام پر جو کھدائی ہوئی ہے۔ اس کے تجزیئے سے کاردی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں کے قدیم باشندے جدید حجری دور کے نیم خانہ بدوش لوگ تھے۔ جو یہاں 350 ق م کے لگ بھگ رہتے تھے۔ انجیرہ قدیم ٹیلہ ایک وسیع و عریض ٹیلے پر مشتمل ہے۔ جو انجیرہ کی دو شاخوں کے درمیان واقع ہے۔ دریائے انجیرہ بلائی دریائے مولا کا ایک معاون دریا ہے۔ یہ سوراب سے سولہ میل جنوب کی طرف اور لاکھوڑیاں کے عظیم گبر بند سے پانچ میل دور شمال کی جانب واقع ہے۔ انجیرہ کا ٹیلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ جب کہ جدید گاؤں انجیرہ کھلے میدان کے مراکز میں ہے۔ انجیرہ ٹیلہ ( یا دمب ) 570 فٹ شمالاً جنوباً لمبا اور 350 فٹ شرقاً غرباً چوڑا ہے۔ ٹیلے کی ایک جانب پہاڑی نالوں کا پانی خاصے بڑے حصے کو بہا کر لے گیا اور 27 فٹ اونچی پہاڑی چھوڑ گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کم از ک 27 فٹ نیچے تک آبادی تھی۔ اس پہاڑی کی چوتی سے ٹیلے کی چوٹی مزید 8 فٹ اونچی ہے۔ گویا قدرتی زمین ٹیلے کی چوٹی سے مزید 35 فٹ نیچی تھی۔ ٹیلے کے ارد گرد بھی قدیم برتنوں کے ٹکڑے جگہ جگہ سے ملے ہیں۔ دریا کے پار مغرب کی طرف ایسے ٹکڑوں کی کثرت ہے۔ ایک کاریز کے قریب جو ٹیلے سے 120 گز کے فاصلے پر ہے ایک کنواں ملا ہے۔ جس کی دیواریں مربع شکل کے پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ ان پتھروں کا قطر 1/2 3 فٹ ہے۔ یہی طرز تعمیر شہر کے اندر بھی پایا گیا ہے۔ جس مطلب یہ ہے یہ کنواں ان لوگوں کے استعمال میں تھا۔ کچھ فاصلے پر بہت ساری پتھر کی بنائی ہوئی یادگاریں ملی ہیں۔ یہ دو قسم کی ہیں۔ ایک میں پتھر کی بنی ہوئی دائرے میں دیوار ہے۔ جس کی مغرب کی سمت کھلی ہوئی ہے۔ دوسری میں پتھروں سے گول چبوترا بنایا گیا ہے۔ ٹیلے کی چوٹی پر ایک وسیع و عریض تقریباً 52 فٹ لمبی عمارت کے آثار ملے ہیں۔ ٹیلے کی کھدائی سے اوپر تلے چار مدفون آبادیوں کا پتہ چلتا ہے۔ سطح کے اوپر پانچویں آبادی تھی۔ جس کے آثار بہت کم باقی بچے ہیں۔
پہلا زمانہ
ترمیمسب سے قدیم آبادی کے آثار میں پتھر، اینٹوں یا گارے سے بنے ہوئے مکانوں کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جو کچھ ملا ہے وہ زیادہ تر راکھ اور راکھ ملی مٹی ملی ہے اور چند پتھر ہیں۔ کچھ ایسا کچرا ہے جو کسی خانہ بدوش گروہ نے چھوڑا ہے۔ لگتا ہے اس زمانے میں یہاں نیم خانہ بدوش لوگ ضرور قیام پزیر رہے ہیں۔ جو درختوں کی شاخوں کو توڑ کر زمین میں گاڑ لیتے ہوں گے اور ان پر چٹائیوں کی چھت ڈالتے ہوں گے۔ کچھ چاک پر بنے ہوئے زرد رنگ کے نفیس برتن بھی ملے ہیں۔ اکثر ان پر لال پانی چڑھایا گیا ہے اور ان میں سے کوئی کوئی برتن انتہائی چمکیلا ہے۔ ان میں سے اکثر بغیر کسی نقش یا تصویر کے ہیں۔ لیکن اکا دکا نقوش سے بھی آرستہ ہیں۔ پتھر کے اوزار وافر مقدار میں ملے ہیں۔ ان میں آدھے چاند کی شکل کے اور چاقو جیسے بھی عمدہ اوزار بھی تھے۔ جانوروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ جن میں کچھ بھیروں کی ہیں اور کچھ گائے بھینسوں کی ہیں۔۔ انہی جانورں کی ہڈیوں سے بنی ہوئی رنبھی، کانڈی، سوا اور چھوٹے چھوٹے منکے بھی ملے ہیں۔ انجیرہ کے حجری اوزاروں کی ایک اہمیت یہ بھی ہے یہ بہت زیادہ تعداد میں ملے ہیں۔ یہ تمام کے تمام نہایت نفاست سے بنے ہوئے ہیں اور ان کا زمانی تعین کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض ناقص عقیق کی قسم کے کسی پتھر سے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کہ سب چلکا اوزار ہیں اور چاقو کی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے چودہ ایسے تھے جن پر کھرچائی رگرائی وغیرہ کی گئی ہے۔ بارہ چاقو ایسے تھے جن کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ انھیں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک نصف چاند کا خوبصورت اوزار بھی ہے۔ ایک جگہ پتھر کی بہت ساری کرچیاں اور کچھ پتھروں کے ٹکڑے اور چند ادھ گھڑ اوزار ملے ہیں۔ یہ یقینا اوزاروں کی وکشاب تھی۔ جس کا یہ کچرا ہے۔ ان میں ہند سی اشکال نہیں ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جدید حجری سامان ہے۔ کرنل ڈی ایچ گورڈن نے ان اوزاروں کا معائنہ کرکے حتمی فیصلہ سے دیا کہ یہ بلا شک و شبہ جدید حجری اوزار ہیں۔ ایک اوزار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ درانتی کا پھل رہا ہوگا۔ اس طرح بعض نوک دار اوزار تیر کے پھل ہوں گے۔ جانوروں کی ہڈیوں، درانتی، جدید حجری اوزار اور برتنوں کی موجودگی سے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ لوگ بکری، بھیڑ اور گائے یا بھینس پالتے تھے۔ کسی نہ کسی قسم کی کھیتی باڑی کرتے ہوں گے۔ کوئی نہ کوئی اناج ( باجرہ، گندم، جوار یا جو ) اگاتے تھے۔ اس ابتدائی زراعت میں فضل گاہنے اور دانہ نکالنے کا کام نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ فضل کاٹنے کے بعد جلا کر یا بھون کر کھائی جاتی تھی۔ آٹا پیسنے کا تصور بہت بعد کی پیداوار ہے۔
دوسرا زمانہ
ترمیماس عہد کی آبادی میں مکانوں کے آثار ملے ہیں۔ قدرتی طور پر گول پتھروں سے بنی دیواریں پائی گئی ہیں۔ ان دیواروں کی بنیاد میں یہی دریائی گول پتھر جن کی موٹائی آٹھ انچ کے لگ بھگ ہے۔ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ دو فٹ تک کی دیوار انہی پتھروں کی بنی ہوئی ہے۔ اس سے اوپر چھوٹے پتھر تقریباً تین انچ موٹے استعمال ہوئے ہیں۔ محنت سے بنے ہوئے مکانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ لوگ اب مستقلاً آباد ہو گئے تھے۔ اس آبادی میں پتھر کے اوزار بہت کم ملے ہیں۔ اس سطح سے جو برتن ملے ہیں وہ ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت سوں پر ٹوکری کے نشانات ہیں۔ برتن سازی کا سب سے قدیم طریقہ ٹوکری کی مدد سے بنانے کا تھا۔ بعض پتوں کی بنائی کرکے ٹوکری سی بنالیتے تھے پھر اس کے اندر پیندے اور دیواروں کے ساتھ گیلی مٹی کی تہ جمادی جاتی تھی۔ برتن کی اونچائی ٹوکری سے دوگنی، تگنی یا چوگنی ہوتی تھی۔ اگرچہ ٹوکریاں تو اپنے طور پر محفوظ نہیں رہے سکیں لیکن سن کے نشانات سے ٹوکری سازی کی ٹیکنک پر روشنی پرتی ہے۔ بعض جگہ تو ٹوکری سلائی کرکے بنائی گئی ہے اور بعض جگہ بنائی کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ غالباً ان ٹوکریوں سمیت ان کچے برتنوں کو بھٹی میں پکایا جاتا ہوگا۔ ان برتنوں کی شکلیں گھڑے، مرتبان، پیالے اور چاٹی سے قدرے ملتی جلتی تھیں۔ ان میں ایک نہایت دلچسپ پیالہ بھی ہے جس کا لمبا پائدان ہے۔ یہ خاکسری رنگ کا ہے اور اس پر کانٹے اور لکھیریں کھدی ہوئی ہیں۔ یہ لکھیریں ایک دوسرے کو ترچھی آ کر ملتی ہیں۔ اس برتن کی اثری اہمیت یہ ہے کہ ایسا کوئی اور برتن پورے پاکستان میں کہیں سے نہیں ملا ہے۔ ایک جگہ غالباً کوڑے کا ڈھیر ٹھا۔ جس میں سے کچھ ناقص عقیق کے اوزار ملے ہیں۔ جو پہلے مرحلے جیسے ہی تھے۔ ایک سیپی یا ہڈی کا منکا ملا ہے اور دو مٹی کے بنے ہوئے سینگ جو کسی بیل کی مورتی سے ٹوٹے ہیں۔ دوسرے مرحلے کی آبادی کا رقبہ اتنا ہی ہے جتنا پہلے کا۔
تیسرا زمانہ
ترمیماس زمانے میں عمارتوں میں نمایاں تبدیلی پائی گئی ہے۔ اب قدرتی طور پر دستیاب پتھروں کو استعمال کرنے کی بجائے باقائدہ گھڑ کر مربع شکل کے پتھر استعمال کیے گئے ہیں۔ بلکہ بہت بڑے بڑے بلاک گھڑ کر لگائے گئے ہیں۔ یہ دیواریں کم اونچائی تک محفوظ رہی ہیں اور جتنی ہیں وہ سب پتھر کی ہیں۔ لیکن ارد گرد ملبے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے اوپر کچی انٹوں کی تعمیر کی گئی تھی جو گر گئی ہے۔ اس زمانے کے برتنوں میں سب سے زیادہ تعداد ٹوکری کی مدد سے بنے ہوئے برتنوں کی ہے۔ کچھ برتن تو ٹوگاؤ ظروف جیسے ہیں اور کچھ آمری، کیچی بیگ ثقافت اور کچھ نندارہ اور نل ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ گاؤں پورے بلوچستان سے ثقافتی اور سماجی طور پر مربوط رہا ہے۔ ان میں بعض نقش و نگار سے خالی ہیں اور بعض پر دو رنگوں میں نقش کاری کی گئی ہے۔ کچھ برتنوں پر ہندسی اشکال ہیں اور برتنوں کی سطح پر ہلکا سا خاکستری رنگ ہے۔ کچھ پر ایسے جانوروں کی جانوروں کی شکلیں بنی ہوئی ہیں جن کے جسموں پر دھبے لگائے گئے ہیں۔ کچھ موٹی کھردری سطح کے برتن بھی ملے ہیں۔ ان برتنوں کی ساخت میں کھلے منہ کے پیالے، تھالیاں، تسلے، گھڑے اور عمودی دیواروں کے پیالے وغیرہ شامل ہیں۔ ناقص عقیق سے بنے حجری اوزار اس آبادی میں یکسر ناپید ہیں۔ لیکن ایک جگہ پتھر کی بنی ایک کسوٹی ملی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دھات کے اوزار ان لوگوں کے زیر استعمال تھے۔ ان تینوں اوزاروں کے فن تعمیر میں ارتقائ نظر آتا ہے۔ جس میں نیم خانہ بدوشی، حجری اوزار استعمال کرنے والے لوگ مستقل آباد سماج میں تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔ جو دھات کے استعمال سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ برتنوں کی تبدیلی خالص ارتقائی تو نہیں لیکن نوعیت بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک آبادی کو کوئی لوگ کہیں سے فتح کرتے ہیں اور شہر کو تباہ کرنے کے بعد پھر آباد کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس راکھ سے ملا ہے جو دو آبادیوں کے درمیان ایک پرت بنائے ہوئے ہے۔ ماہرین آثار نے ایرانی حملہ آوروں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن مقامی گروہی لڑائیوں کا امکان زیاہ قرین قیاس ہے۔ کیوں کہ جب لوگ بغیر عمارتوں کے گھاس پھوس کے جھونپڑوں میں رہتے تھے تو ان کے استعمال کے ظروف نہایت نفیس اور عمدہ تھے۔ ظاہر یہ کسی قریبی آبادی سے حاصل کیے گئے ہوں گے۔ جو نسبتاً زیادہ مستقلاً آباد اور ترقی یافتہ ہے۔ پاکستان کے جدید حجری دور کے بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کسی بھی علاقے میں سماجی اور مادی ترقی ہموار نہیں ہوئی۔ لوگ گروہوں اور قبیلوں میں منقسم تھے اور ان کی مادی اور انسانی ثقافت میں ترقی کا معیار یکساں نہیں تھا۔ یہی قبائل جب بعد میں آہستہ آہستہ ایک وسیع سماج میں جذب ہو گئے تو انھوں نے مختلف برادریوں یا ذات پات یا قوم یا قبیلوں کی شکل اختیار کرلی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان میں سے ہر گروہ شروع میں خود کفیل سماج تھا۔ ضرورت کی ہر مادی چیز خود بناتا تھا اور خوراک خود تلاش کرتا تھا یا بعد میں پیدا کرتا تھا۔ لہذا ایک طرح سے ایک قبیلے کے اندر آج کی اصلاح میں کئی ذاتیں یا پیشے موجود تھے۔
چوتھا زمانہ
ترمیمیہ زمانہ اس بستی میں زبردست تعمیر و ترقی کا ہے۔ فن تعمیر میں ایک نمایاں تبدیلی یہ آئی کہ پتھروں کو باقائدہ گھڑ کر استعمال کیا جانے لگا اور دیوروں کی تعمیر بے ترتیب پتھر جوڑنے کی بجائے باقائدہ ردے جما کر کی جانے لگی۔ پتھروں کا سائز یکساں تو نہیں تھا، لیکن ہر پتھر اچھی طرح چوکور بنایا گیا تھا۔ زمین کے اندر دو فٹ گہری بنیاد پتھر کی دیوار سے بنائی گئی تھی اور سطح زمین کے اوپر بھی دو فٹ اونچی دیوار انھیں پتھروں کی تھی۔ اس کے اوپر کچی اینٹوں کی تعمیر کی گئی تھی۔ گھر کے اندر جو کمرے تھے ان میں اکثر کا سائز 10 * 20 فٹ تھا۔ کمروں کے درمیان اکثر رہداریاں تھیں اور ہر رہداری کے اختتام پر پتھر کی بڑی سی سل کی ایک دہلیز بنی تھی۔ رہداریوں کی چوڑائی عموماً 1/2 2 فٹ تھی۔ گھروں کی تنظیم بہت عمدہ تھی۔ صحن کے فرش پتھر کے تھے۔ ماہرین کا اندازاہ ہے کہ مکانیت کے مقابلے میں افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ برتنوں میں گذشتہ تینوں ادوار کے ظروف ایک آدھ سے زیادہ نہیں ملے ہیں۔ سب نئی طرز کے ہیں۔ ان پر رنگ کیا گیا ہے۔ ان کے دھانے عموماً باہر کو نکلے ہوئے ہیں اور ان پر کنگی دے یا لکڑی کی نوک سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ یہ نل ضروف کی طرح ایک یا دو رنگوں سے منقش ہیں۔ اس زمانے کی انجیرہ بستی میں ناقص عقیق کے بنے ہوئے اوزار بھی ملے ہیں۔ لیکن پتھر کی بنی استعمال کی دوسری چیزیں بہت سی ملی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اوزار اب دھات میں بنے لگے ہیں۔ پتھر کی دوسری اشیائ میں دروازوں کی چولیں، بڑی بڑی چرخیاں اور چند کھرل ملے ہیں۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ماخذ یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور