جنوبی ہند کے مصنوعی غار، جو قدیم زمانے کے کاریگروں نے پہاڑ تراش کر بنائے تھے۔ دراصل یہ مندر ہیں جو حیدرآباد دکن کے نزدیک اورنگ آباد سے تیرہ میل شمال مغرب کی جانب واقع ہیں۔ ان کا زمانہ پانچویں سے دسویں صدی عیسوی خیال کیاجاتا ہے اور یہ 4\1 مربع میل علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کل غار یا عمارتیں چونتیس ہیں۔ ان میں بدھ مت کی بارہ۔ برہمنوں کی سترہ اور جینیوں کی پانچ ہیں۔

ایلورا
UNESCO World Heritage Site

کیلاسانتھا مندر، (غار 16)
پہاڑی کے اوپر سے ایک تصویر
اہلیتثقافتی: (i) (iii) (vi)
حوالہb 243
کندہ کاری1983 (7 دور)

پہاڑ کی جن چٹانوں کو تراش کر یہ غار بنائے گئے ہں۔ وہ خشک پہاڑ ہیں۔ ان غاروں کی ترتیب اور تراش میں معماروں نے کمال دکھایا ہے۔ چٹانوں کو کاٹ کر دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتیں تیار کی گئی ہیں۔ ایک ہی چٹان سے دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارت کے چھت ،پیلپائے، دلان، حجرے، سیڑھیاں اور دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بت بنانا آسان کام نہیں۔ ان سنگ تراشوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ اندازہ کر لیا کہ چٹان میں وہ عمارت کھودنے والے ہیں وہ اندر سے ٹھوس اور دراڑ کے بغیر ہے۔ ان عمارتوں کے کمرے بھی اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں ایک ہزار سے زیادہ آدمی ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ تمام عمارتوں میں دو طرفہ زینے تراشے گئے ہیں جن پر چار پانچ آدمی بیک وقت ایک ساتھ چڑھ سکتے ہیں۔ اسی سے باقی عمارتوں کی وسعت اور عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان میں ہوا اور روشنی کا بھی انتظام تھا۔ صرف چند کمرے ایسے ہیں جنھیں تاریک کہا جا سکتا ہے۔

ان غاروں میں بے شمار تراشیدہ بت ہیں جن کی ساخت بتاتی ہے کہ اس زمانے کے سنگ تراش اپنے فن میں کس قدر ماہر تھے۔ بعض بت بہت بڑے لیکن طبعی تناسب کے لحاظ سے کاریگری کے بہترین نمونے ہیں۔ سب سے زیادہ بت بدھ،مہادیو اور پاربتی کے ہیں۔ مشہور ہے کہ مہادیو سب سے پہلے انھی پہاڑیوں پر ظاہر ہوئے تھے اور اپنی بیوی پاربتی کے ساتھ یہاں رہا کرتے تھے۔

ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ایلورا کی عمارتیں کسی ایک زمانے میں تعمیر نہیں ہوئیں بلکہ مختلف زمانوں میں ایک طویل عرصے یعنی صدیوں کی محنت اور صبر و استقلال کا نتیجہ ہیں۔اس م

متناسقات: 20°01′35″N 75°10′45″E / 20.02639°N 75.17917°E / 20.02639; 75.17917

نگار خانہ ترمیم