ایمن آباد
چھوٹا سا قصبہ سکھوں کے لیے بطور خاص یہ مقدس مقام ہے کیونکہ گرونانک اپنے اسفار کے دوران یہاں دو بار آئے۔ تب یہ علاقہ سیدپور کہلاتا تھا۔ یہ تقریباً 1510ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں گرونانک ہندوستان بھر کے دورے کر رہے تھے تاکہ لوگوں کو بھلائی کی باتیں بتاسکیں۔
ایمن آباد میں ایک غریب ترکھان، بھائی لالوان کا دوست بن گیا۔ گرونانک نے اسی کے گھر قیام کیا۔ انہی دنوں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ہوا یہ کہ ملک بھاگو قصبے کا حاکم تھا۔ اس نے ایک دن دعوت کا اہتمام کیا، تو گرونانک کو بھی بزرگ ہستی سمجھ کر دعوت دی۔
نانک نے اسے کہلوایا ’’ارے ہم فقیر ہیں، ہمیں تمھاری دعوت سے کیا لینا دینا؟‘‘ تاہم ملک بھاگو نے اصرار جاری رکھا۔ اس پر گرونانک نے سوکھی چپاتیوں اور اچار پر مشتمل کھانا اٹھایا، بھائی لالو کو ساتھ لیا اور ناظمِ قصبہ کی حویلی پہنچ گئے۔
ملک بھاگو بھائی لالو اور سوکھی چپاتیاں دیکھ کر براوختہ ہو گیا۔ گرونانک سے کہنے لگا ’’تم نے ایک معمولی ترکھان کے گھر سے گھٹیا چپاتیاں میرے محل لاکر میری توہین کی ہے۔ میری دعوت میں شاندار کھانے پکائے گئے ہیں۔ پھر تم نے آنے سے کیوں انکار کیا؟‘‘
گرونانک کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر لپک کر قریبی دسترخوان پر رکھا اور دیسی گھی میں ڈوبا شیر مال اٹھالیا۔ جب انھوں نے شیر مال ہاتھوں میں لے کر دبایا، تو اس سے خون ٹپکنے لگا۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود سبھی لوگ خوف کے مارے چونک اٹھے۔ اس کے بعد گرونانک نے بھائی لالو کی چپاتی ہاتھوں میں دبائی، اس سے دودھ ٹپکنے لگا۔ اس منظر نے سبھی کو حیران کر دیا۔گرونانک پھر گویا ہوئے:
’’اے بھاگو! غریبوں پر ظلم و ستم ڈھا کر جو پیسا کمایا جائے وہ انسانوں کا خون چوسنے کے مترادف ہے اور تمھارا یہی وتیرہ ہے۔ میں تو محنت و ایمان داری سے حاصل کردہ دودھ پی رہا تھا ،تم مجھے خون پلانے پر تل گئے۔ میں پھر یہ دعوت کیسے قبول کرلیتا؟‘‘
یہ واقعہ ماورائے عقل ہونے کے باوجود سبق آموز ضرور ہے۔ گرونانک 1521ء میں دوبارہ ایمن آباد آئے۔ وہ ابھی وہیں قیام پزیر تھے کہ مستقبل میں مغل سلطنت کا افغان بانی،بابر اپنی فوج لیے ایمن آباد آپہنچا۔ مغل فوج نے متحارب لشکر کو شکست دی اور قصبے کے سبھی زندہ بچ جانے والے لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ان میں نانک بھی شامل تھے۔
سکھ روایات کے مطابق گرونانک کو چکی پر آٹا پیسنے پر لگا دیا گیا۔ تب انھوں نے ’’چمتکار‘‘ دکھایا اور چکی خود بخود گھومنے لگی۔ یہ دیکھ کر سبھی مغل سپاہی حواس باختہ ہو گئے۔ ’’چکی کا جادو‘‘ کی خبر سن کر بابر بھی وہاں آپہنچا اور اپنی آنکھوں سے اسے گھومتے دیکھا۔
بابر کو یقین ہو گیا کہ گرونانک کوئی خاص ہستی ہے۔ چناں چہ اس نے انھیں رہا کر دیا۔ بعد ازاں ان کی فرمائش پر بابر نے ایمن آباد کے سبھی قیدی بھی چھوڑ دیے۔ تب گرونانک نے اسے دعا دی کہ ہندوستان میں اس کی سلطنت قائم ہوگی اور جو طویل عرصہ چلے گی۔
گرونانک جہاں قید ہوئے تھے، وہاں مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں ایک گردوارہ بنایا گیا جو ’’گردوارہ چکی صاحب‘‘ کہلاتا ہے۔ نیز ایمن آباد ہی میں نانک سے وابستہ مزید دو اہم گردوارے …گردوارہ روڑی صاحب اور گردوارہ کھوئی بھائی لالو واقع ہیں۔
ایمن آباد آج ایک قصبہ یا چھوٹا سا شہر بن چکا مگر ماضی میں یہ شاہراہ ریشم کی تجارتی گزرگاہ کا اہم مرکز رہا ہے۔ اسی لیے مغل دور میں یہ اورنگزیب کے زمانے تک علاقے کا انتظامی صدر مقام رہا۔ تب گوجرانوالہ آج جیسی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ علاقے کا مغل والی یا گورنر ایمن آباد میں قیام کرتا۔ ان والیوں نے قصبے میں کئی عمارات تعمیر کرائیں جن میں باغات، سرائیں، غسل خانے اور حویلیاں شامل ہیں۔ ان کے آثار ایمن آباد میں جابجا موجود ہیں۔
زمانے کی دست و برد سے محفوظ رہ جانے والے آثار میں سب سے مشہور ’’عبدالنبی مقبرہ‘‘ ہے۔یہ ’’کوٹلی مقبرہ‘‘بھی کہلاتا ہے۔ یہ مقبرہ ایمن آباد کی مضافاتی بستی،کوٹلی مقبرہ میں واقع ہے۔یہ مقبرہ اس لحاظ سے عجیب و غریب ہے کہ کھیتوں کے بیچوں بیچ،سنسان جگہ ایک بلند ٹیلے پر واقع ہے۔وہاں دور دور تک کسی اورعمارت کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔
کوٹلی مقبرے کا طرز تعمیر لاہور کی مشہور عمارت چوبرجی سے ملتا جلتا ہے۔ چوبرجی دراصل ایک وسیع و عریض باغ کا دروازہ تھا جو اب معدوم ہو چکا۔ جبکہ کوٹلی مقبرے کے عین وسط میں واقع سفید گنبد عیاں کرتا ہے کہ اسے بطور مقبرہ تعمیر کیا گیا۔
مقبرے کی تعمیر میں سرخ اینٹیں اور گارا استعمال کیا گیا۔ کسی زمانے میں اس پر بھی خوبصورت نقش نگار تھے مگر اب وہ تقریبا مٹ چکے۔ حقیقتاً یہ مقبرہ بتدریج منہدم ہورہا ہے۔ اگر اسے محفوظ رکھنے کے لیے فوری قدم نہ اٹھایا گیا، تو جلد صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ کیا محکمہ آثار قدیمہ کے کرتا دھرتا ہمارے اس اہم ثقافتی و تہذیبی ورثے کی دیکھ بھال پر توجہ دے سکیں گے؟
لاہور کے مقبرہ جہانگیر کی طرح کوٹلی مقبرے میں مدفون ہستیاں بھی تہ خانے میں دفن ہیں۔ اس مقبرے کے تہ خانے میں تین قبریں ہیں… مگر کوئی وثوق سے نہیں جانتا کہ یہ کن لوگوں کی ہیں۔ چناں چہ یہ اسرار مقبرے کو مزید ندرت دے ڈالتا ہے۔
بہرحال مؤرخین نے نظریات کے اپنے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اس مقبرے میں شیخ عبدالنبی دفن ہیں جو شہنشاہ اکبر کے دور میں صدر الصدور اور قاضی القضاہ بھی رہے۔ مگر یہ مقبرہ سترہویں صدی میں تعمیر ہوا، یعنی شیخ عبدالنبی کی وفات کے تقریباً سو سال بعد۔ پھر کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ شیخ صاحب نارنول (ہریانہ) میں دفن ہیں۔ چناںچہ یہ مقبرہ شیخ عبدالنبی کا نہیں ہو سکتا۔
مغلیہ دور میں اگرچہ عبدالنبی نام کی دو شخصیات ضرور ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک دیوان عبدالنبی خان ہے جو شاہ جہاں اور اورنگزیب کے زمانے میں علاقے کا والی تھا۔ ممکن ہے،جب ایمن آباد میں اس کا انتقال ہوا،تو ورثا نے مضافات شہر میں یہ مقبرہ بنا اسے وہاں دفنا دیا۔
دوسرا عبدالنبی خان دوراں نصرت جنگ کا بیٹا تھا۔ خاں دوراں شاہ جہاں کا پسندیدہ مصاحب رہا ہے۔ 1645ء میں فوت ہوا۔ اس کا مقبرہ لاہور کے محلے، مغل پورہ میں واقع ہے۔
مغلیہ دور کی اہم کتب تاریخ،’’ماثرالامرا‘‘ اور ’’شاہ جہاں نامہ‘‘ میں درج ہے کہ اپنے مصاحب کی وفات کے بعد شاہ جہاں نے اس کے تینوں بیٹوں کو جاگیریں عطا کیں۔ تب چھوٹا بیٹا،عبدالنبی بارہ سال کا تھا۔ ممکن ہے کہ اس لڑکے کو ایمن آباد میں جاگیر عطا ہوئی اور وہیں عبدالنبی کا مقبرہ بھی تعمیر ہوا۔