ایمو لڑائی
جنگِ ایمو جسے ایمو کے خلاف عظیم جنگ[1] بھی کہا جاتا ہے، آسٹریلیا میں 1932ء کے اواخر میں فوج کی طرف سے نقصان دہ بننے والے پرندے اِیمو کے خلاف لڑی جانے والی جنگ تھی۔ یہ ناکام لڑائی آسٹریلیا کے مقامی اور اڑنے سے معذور پرندے ایمو کے خلاف لڑی گئی۔ اس لڑائی میں ایمو کے خلاف فوجیوں کو لیوس گن یعنی ہلکی مشین گن دی گئی تھی۔ مقامی اخبارات میں اسے جنگ کا نام دیا گیا۔ اگرچہ بہت سارے ایمو مارے گئے مگر ایمو کی کل آبادی برقرار رہی اور فصلوں کو نقصان بھی پہنچاتی رہی۔
آسٹریلوی افواج کی کارروائی میں مارے گئے ایک ایمو کو ایک شخص اٹھائے ہوئے ہے۔ | |
تاریخ | 2 نومبر – 10 دسمبر 1932ء |
---|---|
شرکا | ایمو پرندے سر جارج پیئرس میجر جی۔ پی۔ ڈبلیو۔ میریڈتھ رائل آسٹریلین آرٹلری |
نتیجہ | ناکامی۔ ایمو پرندوں کی تعداد مستقل رہی۔ دیکھیے نتیجہ |
پس منظر
ترمیمپہلی جنگ عظیم کے بعد آسٹریلیا کے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد نے جن میں برطانوی فوجی بھی شامل تھے، مغربی آسٹریلیا میں زراعت شروع کی۔ عظیم مندی کا دور 1929ء میں شروع ہوا تو ان کسانوں کی گندم کی زیادہ پیداوار کے لیے حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی کی گئی اور اگر وہ ناکام رہتے تو حکومت انھیں امداد بھی دیتی۔ تاہم حکومتی حوصلہ افزائیوں اور امداد کے وعدوں کے باوجود گندم کی قیمت گرتی رہی اور اکتوبر 1932ء میں معاملات اس وقت بہت گھمبیر ہو گئے جب کسانوں نے فصل کاٹنے کا ارادہ کیا اور حکومت کو دھمکی دی کہ وہ حکومت کو گندم نہیں دیں گے۔ [2]
کسانوں کی مشکلات اس وقت مزید بڑھ گئیں جب 20٫000 ایمو اپنی سالانہ افزائشِ نسل کے دوران میں ہجرت کر کے یہاں آئے۔[3] ایمو ہر سال ایسا کرتے ہیں۔ یہاں پہنچے تو انھیں نہ صرف صاف زمین ملی بلکہ زراعت کے لیے بنائی گئی نہروں سے پانی بھی آسانی سے ملنے لگا۔ لہذا ایمو نے یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا اور فصلوں سے پیٹ بھرنے لگے۔ اس کے علاوہ جب وہ باڑ سے گزرتے تو بڑے سوراخ کر جاتے اور ان سوراخوں سے بعد میں خرگوش اندر گھس کر مزید تباہی پھیلاتے۔[4] کسانوں نے اپنے خدشات سے حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ پرندے ان کی فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں اور سابق فوجیوں کا ایک وفد جا کر وزیرِ دفاع سر جارج پیئرس سے ملا۔ پہلی جنگِ عظیم میں شمولیت کی وجہ سے ان سابق فوجیوں کو مشین گن کے کا پورا علم تھا، چنانچہ انھوں نے مشین گنیں مانگیں۔ متعلقہ وزیر نے فوراً ہامی بھر لی تاہم کچھ شرائط عائد کر دیں۔ مشین گن کے استعمال کے لیے فوجی بھیجے جاتے اور فوجیوں کی منتقلی کا خرچہ مغربی آسٹریلیا کی حکومت ادا کرتی جبکہ فوجیوں کی رہائش، گولے بارود کا خرچہ اور کھانے پینے کا ذمہ مقامی کسانوں کے سر ہوتا۔[2][5] پیئرس کا خیال تھا کہ نشانے کی مشق کے لیے یہ پرندے بہت مناسب تھے[6] جبکہ حکومت کے اندر کچھ اہلکار یہ چاہ رہے تھے کہ اس طرح وہ دوسروں کی نظر میں مغربی آسٹریلیا کے کسانوں کی مدد کرتے دکھائی دیتے۔ فوجیوں کے علاوہ فاکس مووی ٹون کے کیمرا مین کو بھی ساتھ بھیجا گیا۔[2]
جنگ
ترمیمفوجیوں کی شمولیت اکتوبر 1932ء میں شروع ہوئی[5] ان کی سربراہی سیونتھ ہیوی بیٹری کے میجر میریڈتھ کے پاس تھی۔[2][6] ان کے پاس دو مشین گنیں[8] اور 10٫000 گولیاں تھیں۔[6] تاہم برسات شروع ہونے کی وجہ سے یہ آپریشن کچھ تاخیر کا شکار ہوا اور اس دوران میں ایمو خاصے بڑے رقبے پر پھیل گئے۔[5] 2 نومبر 1932ء[2][5] کو بارشیں ختم ہوئیں اور فوجیوں کو تیار کر دیا گیا۔ ان کے ذمے ایمو کی 100 کھالیں جمع کرنا بھی لگائی گئیں تاکہ ان کے پروں سے ہیٹ بنائے جائیں۔[9]
پہلی کوشش
ترمیم2 نومبر کو فوجی مہم، مغربی اسٹریلیا جا پہنچی جہاں 50 ایمو موجود تھے۔[2] تاہم یہ پرندے بہت دور تھے، لہذا مقامی لوگوں نے انھیں گھیرنے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم ایمو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے اور اتنی تیزی سے بھاگنے لگے کہ ان پر نشانہ لینا ممکن نہ تھا۔[6] پھر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی جو زیادہ فاصلے کی وجہ سے ناکام رہی۔ پھر دوسرے ہلے میں کئی پرندے مرے۔ اسی دن بعد میں ایک چھوٹا غول دکھائی دیا جس پر گولیاں چلا کر دس یا بارہ ایمو مارے گئے۔[2]
اگلا مرحلہ 4 نومبر کو پیش آیا۔ میریڈتھ نے ایک مقامی بند کے قریب مورچہ بنایا اور 1٫000 سے زیادہ ایمو ان کی طرف آتے دکھائی دیے۔ بندوقچیوں کو حکم تھا کہ پرندوں کو بہت قریب آنے دیا جائے اور پھر گولیاں چلائی جائیں۔ تاہم دس یا بارہ پرندے شکار ہوئے تھے کہ بندوق میں گولی پھنس گئی۔[10] اتنی دیر میں پرندے فرار ہو گئے اور باقی سارا دن بے کار گذرا۔[2]
اگلے کئی روز تک میریڈتھ نے مزید جنوب کا رخ کیا جہاں ایمو زیادہ خبردار نہیں ہوئے تھے[11] مگر اسے زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔[2] چوتھے روز انھوں نے دیکھا کہ ہر گروہ کا اپنا سربراہ بن چکا ہے جو دوسروں کی نگرانی کرتا ہے اور انسانوں کے قریب آنے پر خطرے کا الارم بجا دیتا ہے۔[12] ایک بار تو میریڈتھ نے ٹرک پر مشین گن لاد کر ایمو کا پیچھا کیا مگر ناکامی ہوئی کہ ٹرک بہت زیادہ ہلتا تھا اور اس کی رفتار بھی ایمو سے کم تھی۔[2] 8 نومبر تک یعنی چھ روز کی لڑائی میں 2٫500 گولیاں چل چکی تھیں[6] اور کچھ لوگ کہتے تھے کہ 50 ایمو مارے گئے[6] جبکہ کچھ نے کہا کہ 200 سے 500 ایمو مرے۔ تاہم فوجی اس بات پر مطمئن تھے کہ ان کا کوئی ساتھی نہیں مارا گیا۔[2] اس کا نتیجہ پرندوں کے ایک ماہر ڈومینک سروینٹی نے کچھ یوں نکالا:
” | مشین گن چلانے والوں کا خیال تھا کہ وہ انتہائی قریب سے گولی چلا کر بے شمار پرندے مار لیں گے۔ تاہم ایمو نے گوریلا لڑائی شروع کر دی اور بے شمار چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے جس کی وجہ سے فوجی ہتھیار بے کار ہو گئے۔ پورے مہینے کی لڑائی کے بعد بھی فوجی ناکام لوٹے"۔[13] | “ |
8 نومبر کو آسٹریلیا کے ایوانِ نمائندگان میں اس پر گفتگو ہوئی۔ مقامی اخبارات میں اس کی منفی تصویر کشی ہوئی[14] جس میں کہا گیا کہ چند ایمو مارے گئے ہیں۔[4] پیئرس نے 8 نومبر کو فوجی دستہ واپس بلا لیا۔[4][6][15][16]
فوجیوں کی واپسی کے بعد میجر میریڈتھ نے ایمو کو زولو سے مشابہہ قرار دیا کہ کس طرح شدید زخمی ہونے کے بعد بھی یہ پرندہ مزاحمت کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ:
” | جتنی گولیاں کھانے کر بھی ایمو لڑتا ہے، اگر اتنے سخت جان فوجیوں کی ایک ڈویژن بھی ہو تو دنیا کی کسی بھی فوج کا سامنا کر سکتی ہے۔ مشین گن کا ان پر اتنا ہی اثر ہوتا ہے جتنا ٹینک پر۔ یہ زولو جیسے تھے جن پر ڈم ڈم یعنی پھیلنے والی گولیاں بھی بیکار تھیں۔[12] | “ |
دوسری کوشش
ترمیمفوجیوں کی واپسی کے بعد ایمو نے فصلوں پر حملے جاری رکھے۔ کسانوں نے پھر حکومت سے مدد مانگی اور عذر پیش کیا کہ گرم موسم اور قحط سالی کی وجہ سے ایمو اب ہزاروں کی تعداد میں کھیتوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ جیمز مچل نے جو مغربی آسٹریلیا کے وزیرِ اعلیٰ تھے، فوج بلوانے کی بھرپور حمایت کی۔ اسی وقت بیس کمانڈر نے رپورٹ پیش کی کہ پہلی کارروائی میں تین سو ایمو مارے جا چکے ہیں۔
بیس کمانڈر کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے 12 نومبر کو وزیرِ دفاع نے فوجی کارروائی کی اجازت دے دی۔[16] اس نے سینیٹ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایمو کی بڑھتی ہوئی تعداد کسانوں کے لیے خطرہ تھی، لہذا اس نے اجازت دے دی۔[4] فوج نے ہتھیار دینے کی ہامی بھری مگر مغربی آسٹریلیا کی مقامی حکومت مطلوبہ افرادی قوت دیتی۔ میریڈتھ ایک بار پھر اس مہم کا سربراہ بنا کیونکہ ریاست میں مشین گن کے تجربہ کار فوجی نہ تھے۔[2]
13 نومبر 1932ء کو فوجیوں کو پہلے دو دن کچھ کامیابی ملی اور 40 ایمو مارے گئے۔ تیسرے روز ایک بھی ہاتھ نہ لگا۔ دو نومبر تک لگ بھگ 100 ایمو ہر ہفتے مارے جاتے رہے۔ میریڈتھ نے 10 دسمبر کو کارروائی ختم کی اور اعلان کیا کہ کل 986 ایمو مارے گئے جبکہ لگ بھگ 2٫500 بھی بعد میں زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئے ہوں گے۔ 986 ایمو کے لیے 9٫860 گولیاں چلائی گئیں یعنی ہر دس گولی پر ایک ایمو۔[2]
نتیجہ
ترمیماس مہم میں ناکامی کے بعد بھی کسانوں نے حکومت سے 1934ء، 1943ء اور پھر 1948ء میں فوجی مدد مانگی۔[2][17] تاہم حکومت نے 1923ء میں متعارف کرایا جانے والا انعام کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ سلسلہ کامیاب رہا اور کل 57٫034 ایمو مارے گئے اور ان کے شکاریوں نے انعام وصول کیا۔ یہ تعداد 1934ء میں محض چھ ماہ میں شکار ہوئی۔[6]
دسمبر 1932ء میں اس لڑائی کے متعلق برطانیہ تک خبر پھیل گئی۔ کئی لوگوں نے اسے نادر پرندے ایمو کا قتلِ عام قرار دیا۔[18]
1930 اور س کے بعد ایمو کو زرعی علاقوں سے باہر رکھنے کے لیے باڑ کا تصور عام ہو گیا۔[19][20]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Dorothy Edwards Shuttlesworth (1967)۔ The Wildlife of Australia and New Zealand۔ University of Michigan Press۔ صفحہ: 69
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر Murray Johnson (2006)۔ "'Feathered foes': soldier settlers and Western Australia's 'Emu War' of 1932"۔ Journal of Australian Studies (88): 147–157۔ ISSN 1444-3058
- ↑ Frank B. Gill (2007)۔ Ornithology (3rd ایڈیشن)۔ Macmillan۔ صفحہ: xxvi۔ ISBN 978-0-7167-4983-7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ^ ا ب پ ت ""Emu War" defended"۔ The Argus۔ 19 November 1932۔ صفحہ: 22۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ^ ا ب پ ت "Rain Scatters Emus"۔ The Argus۔ 18 October 1932۔ صفحہ: 7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Libby Robin، Leo Joseph، Rob Heinshohn (2009)۔ Boom and Bust: Bird Stories For a Dry Country۔ CSIRO Publishing۔ صفحہ: 256۔ ISBN 978-0-643-09606-6۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ "Over the Speakers Chair"۔ The Canberra Times۔ کینبرا، آسٹریلوی دار الحکومت علاقہ۔ 19 November 1932۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2010
- ↑ Jay Mary Arthur (2003)۔ The Default Country: A Lexical Cartography of Twentieth-century Australia۔ UNSW Press۔ صفحہ: 123–124۔ ISBN 978-0-86840-542-1۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ "Machine Guns Sent Against Emu Pests"۔ The Argus۔ 3 November 1932۔ صفحہ: 2۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ Adrian Burton (2013-08-01)۔ "Tell me, mate, what were emus like?"۔ Frontiers in Ecology and the Environment (بزبان انگریزی)۔ 11 (6): 336–336۔ ISSN 1540-9309۔ doi:10.1890/1540-9295-11.6.336
- ↑ West Australian, 4 March 1932, quoted in Johnson (2006), p152
- ^ ا ب "New Strategy In A War On The Emu"۔ Sunday Herald۔ 5 July 1953۔ صفحہ: 13۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ "casuariiform"۔ Encyclopædia Britannica۔ 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2009
- ↑ "Elusive Emus"۔ The Argus۔ 5 November 1932۔ صفحہ: 4۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ "War on Emus"۔ The Argus۔ 10 November 1932۔ صفحہ: 8۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ^ ا ب "Emu War Again"۔ The Canberra Times۔ 12 November 1932۔ صفحہ: 1۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ Request to Use Bombs to Kill Emus, The (Adelaide) Mail, (Saturday, 3 July 1943), p.12.
- ↑ C.F.H. Jenkins (1988)۔ The Wanderings of an Entomologist۔ Cornell University Press۔ صفحہ: 8۔ ISBN 0-7316-2888-8
- ↑ Tom McKnight (July 1969)۔ "Barrier Fencing for Vermin Control in Australia"۔ Geographical Review۔ 59 (3): 330–347۔ 08 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018
- ↑ New Strategy in a War on the Emu, The (Sydney) Sunday Herald, (Sunday, 5 July 1953), p13.
بیرونی روابط
ترمیم- ہم نے "ایمو جنگ" کو کس طرح کھو دیاآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ emugigs.com (Error: unknown archive URL)
- نباتات اور حیوانات: ایمو
- "اٹیک آن اِیموس"۔ دی آرگ۔ 12 نومبر 1932۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018