ایڈورڈز اور بنوں
اس مضمون یا قطعے کو بنوں میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
ایڈورڈز کا نام لیے بغیر بنوں کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ پروفیسر شمشیر علی کے مطابق اگر ایڈورڈز بنوں نہ آتے تو بنوں کی جدید تاریخ کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا۔ بنوں کو پہلے ایڈورڈ آباد بھی کہا جاتا تھا۔ کیونکہ بنوں کا موجودہ شہر ایڈورڈ نے ہی آباد کیا۔ ان سرکش بنویان کو اپنی عقل اور تدبر سے زیر کرنے کا سہرا بھی اسی شخص کے سر ہے۔
ایڈورڈ 1847ء میں بنوں پہنچے۔ اُن کا مقصد بنوں کے لوگوں کو سکھ دربار کی اطاعت پر مجبور کرنا تھا۔ اس نے دلاسہ خان سے ملاقات کی اور انھیں راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بوڑھے ہونے کے باوجود اطاعت کے لیے تیار نہ ہوئے۔ یوں وہ علاقہ داوڑ کی طرف چلے گئے اور بعد میں کوشش کرتے رہے کہ بنوں پر لشکر کشی کریں لیکن کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔
ایڈورڈز نے یہاں آنے کے بعد یہاں کے حالات کا خوب مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ بنوں کا ہر گاؤں اپنی ایک پناہ گاہ رکھتا ہے کیونکہ ہر گاؤں کے گرد ایک فصیل موجود ہوتی تھی۔ اس لیے اس کی تسخیر بہت مشکل ہوتی تھی۔ اس طرح مقامی ملکوں کے ساتھ مل کر اس نے سب سے پہلے ان قلعوں کو گرا دیا۔ اس طرح بنوں والوں نے اپنی پناہ گاہوں کو خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیا۔
بعد میں اس نے یہاں پر پیمائش عرضی کروائی اور سروے کیا، سروے کے بعد موجود قلعہ اور چھاونی تعمیر کرایا۔ اس کے لیے کوٹکہ بریڑا کے قریب جگہ پسند کی گئی اور پھر اسی کے نزدیک موجودہ شہر کی بنیادی رکھی اور اسے ضلعی صدر مقام بنایا۔ اس سے پہلے بازار احمد خان کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس نے زیادہ تر مقامی ہندووں کو یہاں پر آباد کیا۔ شہر کے گرد فصیل بنائی تاکہ اگر بنوں کے لوگ حملہ کریں تو تو شہر محفوظ رہے۔ اس طرح سے بنویان کو سماجی انصاف تو ملا لیکن اس کے بدلے وہ اپنی آزادی مکمل طور پر کھو بیٹھے۔ سکھوں کی دوسری لڑائی کے بعد 1849ء میں تمام پنجاب معہ مصافات ضبط ہو کر انگریز سرکار کی تحویل میں چلے گئے۔ اس طرح سے بنوں بھی براہ راست انگریز کی تحویل میں چلا گیا۔ 1901ء میں نئی حد بندی کے ذریعے بنوں کو صوبہ سرحد میں شامل کر دیا گیا۔