صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوب میں ضلع بنوں ایک اہم ترین خوبصورت شہر ہے۔ جو وزیرستان کے ساتھ واقع ہے۔ اس شہر کی بنیاد 1848میں ایڈروڈ نے ڈالی۔ برطانوی راج میں بنوں شہر کو ایک اہم سرحدی شہر کی حیثیت حاصل تھی۔ بنوں ایک سرسبز شہر ہے عام لوگوں کا پیشہ کاشتکاری ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں میں کپڑے اور گنے کے کارخانے بھی یہاں موجود ہے۔ علاقے کی مشہور سوغات نسوار اور مسالا جات اور مہندی ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں کی مشہور شخصیات میں صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰٰ اکرم خان درانی اور سابق صدر غلام اسحاق خان، قاضی محب ، مولانا محمد گل قریشی، شجرہ نسب نمبر 20 / 1878ء پریز خونی خیل رحمت کلہ سورانی ،اور بریگیڈیئر عبد الحمید حمیدی شامل ہے۔ یہاں ایک یونیورسٹی تین ڈگری کالج، ایک پوسٹ گریجویٹ کالج (جو ضلع کی قدیم ترین کالجوں میں سے ایک ہے) ایک پولیٹکنیک کالج، ایک کامرس کالج، ایک ایلمنٹری کالج اور 10 سے زیادہ ہائی اسکولز ہیں۔ اس کے علاوہ کرم گڑھی میں دو پانی کے بجلی گھر اور ایک پانی کا ڈیم باران ڈیم یہاں تعمیر کیے گئے ہیں۔


بنو
شہر
بنوں کا مریان دروازہ
بنوں کا مریان دروازہ
بنوں is located in خیبر پختونخوا
بنوں
بنوں
بنوں is located in پاکستان
بنوں
بنوں
متناسقات: 32°59′11″N 70°36′16″E / 32.98639°N 70.60444°E / 32.98639; 70.60444
ملکپاکستان کا پرچم پاکستان
صوبہخیبر پختونخوا
ڈویژنبنوں ڈویژن
ضلعضلع بنوں
ہیڈکوارٹربنوں
رقبہ
 • کل1,227 کلومیٹر2 (474 میل مربع)
آبادی (2014)
 • کل1,073,000
 • کثافت552/کلومیٹر2 (1,430/میل مربع)
منطقۂ وقتپ م و (UTC+5)
اہم پائی جانے والی نسل قریشیپشتون
صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع بنوں کا محل وقوع
فائل:Bannu1.JPG
نہر کچکوٹ

بنوں جغرفیائی و تاریخی اور سیاسی لحاظ سے اہم مقام پر واقع ہے۔ بنوں ایک طرف افغانستان سے اور دوسری طرف پنجاب کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اس لیے ماضی میں بیرونی فاتحین کی گزرگاہ رہا۔ یہ انڈیا تک رسائی کا مختصر مگر مشکل ترین راستہ تھا۔ بیرونی فاتحین مغربی دروں سے نیچے اتر کر بنوں سے ہوتے ہوئے آگے پنجاب پھر ہندوستان کا رخ کرتے۔ ان فاتحین کے لیے بنوں معمول کا راستہ ہوتا تھا اور اکثر بیشتر بنوں فاتحین کا نشانہ بنتا ہر فاتح اسے زیر و زبر کرتا اور کافی نقصان پہنچاتا۔

ماضی میں بنوں افغانستان کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا مگر مرکز سے کٹا ہوا بہت دور واقع تھا۔ بنوں افغانستان اور ہندوستان کے سنگم پر واقع تھا یہ افغانستان کے انتہائی مشرقی کونے پر اور ہندوستان کے انتہائی مغربی کونے پر تھا گویا ہر دور میں بنوں مرکز سے کافی دور رہا اس لیے لحاظ سے بنوں ایک دور افتادہ وادی سمجھا جاتا تھا چونکہ یہ بیرونی فوجوں کی گزرگاہ کی زد میں رہا ہر دور میں تباہ برباد اور تخت وتاراج ہوتا رہا۔ تہذیب و تمدن اورتجارتی ترقی سے دور رہا ہمیشہ آزاد رہا۔ یا نیم آزاد رہا سو اپنے رسم و رواج کے مطابق یہاں کے لوگ زندگی بسر کرتے رہے۔ تاج برطانیہ کے قلمرو میں آنے سے پہلے باختر یعنی افغانستان کا ایک صوبہ تھا جس میں پنچاب کا بھی کچھ حصہ شامل ہوتا تھا۔ بنوں واحد ضلع ہے جہاں مغرب کی طرف کوئی شاہراہ نہیں ہے جیسے خیبر کی شاہراہ۔ لیکن اب اکرم خان درانی کی کوششوں سے غلام خون پھاٹک تک شاہراہ کی تعمیر پر کام ہو رہا ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے کابل تک فاصلہ خیبر کے مقابلے میں کئی سو کلومیٹر کم ہو جائے گا۔

ایڈورڈز اور بنوں کا تعلق 1847ء میں قائم ہوا، اسی نے جدید بنوں کی بنیاد رکھی، بن میں آباد کاری کی، ہاکی بنوں کی پہچان ہے اور قاضی محب،سعید خان اور بریگیڈیئر حمیدی سمیت بہت سے کھلاڑیوں نے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بنوں کا اور ملک کا نام روشن کیا. دیگر داستانوں کی طرح بنوں کے سر زمین رومانوی داستانوں سے بھی بھی پڑی ہے تاہم سب سے مشہور داستان واقعہ اسلام بی بی کا ہے فقیر ایپی کے جنگ کا موجب بھی بنا تھا.

شماریات

ترمیم
  • بنوں ضلع کا کُل رقبہ1227 مربع کلوميٹر ہے۔
  • یہاں في مربع کلومیٹر 666 افراد آباد ہيں۔
  • سال 2004-05ميں ضلع کي آبادي 817000 تھی۔
  • دیہي آبادي کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔
  • کُل قابِل کاشت رقبہ 74130 ہيکٹيرزہے۔

نام کی وجہ تسمیہ

ترمیم
فائل:Bannu2.JPG
آکرہ

بعض کتابوں میں بنوں کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ بنوں والوں ( بنویوں ) کے جد امجد شاہ فرید (شیتک) جن کی تین بیویاں تھیں ان تینوں میں سے ایک کا نام بانو بتایا جاتا ہے۔ جب کہ باقی دو کے نام معلوم نہیں۔ بعض مورخین نے بنوں کے نام کی وجہ تسمیہ اسی بانو نامی خاتون کو گردانا ہے۔ جو بالکل غلط ہے کیوں کہ افغان معاشرہ خاتون کے نام کی تشہیر کبھی گوار نہیں کرتا اور اسے ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا ہے۔ اور کسی کو اُس کی ماں یا بیوی سے منسوب کیا جائے تو وہ بہت برا تصور کیا جاتا ہے۔ اور اگر دیکھا جائے تو شیتک یہاں پر جب قبضہ کرنے کے لیے آئے تو یہاں پر پہلے سے منگل اور ہنی قبائل آباد تھے۔ اور وہ اپنے ساتھ قبیلے کے اور لوگ بھی لای۔ اس لیے یہ کہنا کہ سارے بانو وال صرف ایک ہی عورت یعنی بانو کی اولاد ہیں بالکل غلط ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ بنوں میں اولاد شیتک کی آمد سے قبل بنوں نام کا قلمرو یہاں موجود تھا۔ جس کا تاریخی نام بانا بنہ تھا۔ جو بعد میں بنوں پڑ گیا۔ اب بھی بنوں والوں سے پوچھا جائے تو بنوں کو اپنے لہجہ کے مطابق ہمیشہ بانا ہی پکارتے ہیں۔

آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل ایک چینی سیاح ہیون سانگ نے اس کو بانا ہی لکھا ہے۔ فتوح البلاوان کے مصنف البلازڑی نے 44ھ میں بنوں کا ذکر کیا ہے۔ شہر آکرہ کے کھنڈر سے دریافت ہونے والے سکے گواہی دینے کے لیے کافی ہیں۔ کہ بنوں شیتکوں کی آمد سے پہلے بہت اہم تاریخی مقام تھا۔ اس کا اپنا ایک نام تھا۔ اور یہ کوئی بے نام جگہ نہیں تھی۔ تزک بابری میں 1005ء میں بنوں کو بنہ لکھا گیا ہے۔ اور مغربی مصنفین بنوں کو ہنہ( سرحد) کے نام سے یاد کرتے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایک زمانے میں ہنہ باختری (کابل) کا ایک صوبہ رہا ہے۔ 1723ئ تک افغانستان کی قلمرو میں شامل تھا۔ گویہ یہ علاقہ افغانستان اور ہندوستان کے سنگم پر واقع تھا اس لیے جغرافیائی محل وقوع کے باعث اس علاقے کو بنوں کہا گیا۔

ایک اوربات کا امکان ہے کہ بنوں کی وجہ تسمیہ جنگلات کی بہتات ہو۔ کیونکہ بنوں (بن) کی جمع ہے۔ ایڈروڈ لکھتے ہیں پورے ہندوستان کے مقابلے میں بنوں میں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں اور یہاں شیشم اور توت کے گھنے جنگلات ہیں۔ بنوں سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی جنگل کے ہیں۔ بنوں کی قدیم آبادی ہندووں پر مشتمل ہوتی تھی۔ بنوں کے بعض دیہات کے نام بھی سنسکرت سے ماخوذ ہیں جیسے ککی اور بھرت وغیرہ ہو سکتا ہے کہ پرانے باشندوں نے اس کا نام کثرت جنگلات کی وجہ سے بنوں رکھا ہو۔
بنوں میں رہنے کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو اردو بولنے والے حضرات بنوچی کہتے ہیں۔ لیکن اس نام میں تحقیر کا پہلو پایا جاتا ہے۔ اگر اس نام کو بنوزئی پکارا اور اپنے نام کے ساتھ لکھا جائے تو بہتر ہے۔

زبان

ترمیم

بنوں میں 100 فیصد پشتون آباد ہیں۔ جس کی وجہ سے بنوں میں پشتو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بنوں کی پشتو خوست اور قندہار کی پشتو سے بہت ملتی جلتی ہے۔ بنوں کے لوگ پشتو زبان سے انتھائی عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔ اور پشتو کے لیے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔

تہذیب و ثقافت

ترمیم

مسجد

ترمیم
فائل:Bannu3.JPG
بنوں کا گاؤں چھ گڑھی ممش خیل

مسجد مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے جب حضور نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجر ت فرمائی تو سب سے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر عمل میں لائی گئی چنانچہ مسجد کی اہمیت مسلم ہے جہاں مسلمان نہ صرف پجگانہ نماز ادا کرتے ہیں۔ بلکہ مسجد قومی و ملی یکجہتی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔

ماضی میں بنوں کی ہر بستی بلند و بالا حصار میں محصور ہوتی تھی جو دفاعی اغراض کے لیے ضروری بھی تھا مگر نقصان یہ ہوا کہ ہر بستی کی اپنی مسجد اور اپنا قبلہ ہوا کرتا تھا اور صرف اس مسجد سے متعلقہ بستی کے بالغ مسلمان افراد ہی نماز ادا کرنے کے روادار ہوتے تھے جس سے قومی یک جہتی پر کاری ضرب لگی۔
طویل غلامی کے باعث ضمیر اور مزاج اتنا بدل چکا ہے کہ اب توہر بستی میں کئی ایک مساجد ہوا کرتے ہیں اور قومی یک جہتی اور اتحاد کا شیرازہ بری طرح سے بکھر چکا ہے اورقوم منتشر ہو چکی ہے۔ اب ہم آزاد ہیں تو چاہیے کہ ہمارے رویوں میں انقلابی تبدیلی آجائے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو ایک ہی وحدت میں ضم کر لیں اور کم از کم ایک بستی میں ایک ہی مسجد اور ایک ہی امام ہو۔

چوک، حجرہ، ڈیرہ

ترمیم

چوک سماجی مرکز ہوا کرتا ہے۔ چوک کے دو حصے ہوتے ہیں چوک اور دوسرا حجرہ۔ ہر گاؤں میں چوک کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ غمی و شادی دونوں موقعوں پر چوک کا استعمال ہوتا ہے خاص طور پر نماز جنازہ چوک ہی میں پڑھی جاتی ہے۔ فاتحہ خوانی بھی چوک میں سر انجام پاتی ہے۔ ماضی میں دوران میں فاتحہ خوانی بہت بڑا چلم جسے حقہ کہتے ہیں گردش میں رہتا تھا۔ اور لوگ حق کا کش لگاتے تھے چوک کے بیچوں بیج تمباکو بھرا چنگیر میز پر رکھا جاتا تھا یہ بد عادت اب متروک ہو چکی ہے ورنہ ماضی میں فاتحہ خوانی کو زینت بخشنے کے لیے چلم کا ہونا لازمی تھا۔ اب حقہ چوک سے ناپید ہو چکا ہے شاید لوگ کفایت شعار بن گئے ہیں یا باشعور۔

اب ریڈیو ٹیلی وژن اوروی سی آر نے ان محفلوں کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے بعض اوقات محفل موسیقی کا بھی اہتمام ہوتا تھا جو کبھی کبھی اب بھی ہوتاہے۔ چوک میں بھاری بھرکم چارپائیاں ہوتی تھیں ہر چوک کی صفائی کے لیے ایک جاروب کش بھی مقرر ہوتا تھا مگر اب یہ چیزیں عنقا ہو چکی ہیں۔ چوک کااحاطہ محدود ہونے لگا ہے کونے کھدروں میں نئے نئے بیٹھک بن گئے ہیں اب اجتماعیت محدود ہو کر رہ گئی ہے ماضی کی یادیں خواب دکھائی دے رہی ہیں انفرادیت کی گرم بازاری ہر انسان انفرادیت کے خول میں محصور ہو چکا ہے۔

پردے کا رواج

ترمیم

بنوں کے لوگ بھت خوبصورت ہے۔ اس لیے بنوں میں پردے کا سخت رواج ہے خاتون خانہ گھر سے باہر نکلنے کی روادر نہیں ہوتی بوقت ضرورت اگر نکلے بھی تو بھاری بھر کم طویل و عریض چادر سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانپ لیتی ہے ٫برقعۂ،درون خانہ خواتین امور خانہ داری نبھاتی ہیں جبکہ بیرون خانہ مرد حضرات سارے کام انجام دیتے ہیں۔ افغان معاشرہ میں پردے کا ایسا سخت رواج شاید ہی کسی اور معاشرے میں ملے۔ جیسا کہ بنوں میں ہے۔ بنوسیان اس لحاظ سے سفید فام آقاوں کے نزدیک ماضی میں مورد الزام گردانے جاتے تھے گویا بنوسیان کی یہ خوبی ان کے نزدیک خامی تصور کی جاتی تھی۔ ویسے پردے کا یہ رواج مذہبی سے زیادہ تہذیبی ہے۔

قبرستان

ترمیم

ہر گاؤں کے ساتھ محلقہ زمین قبرستان کے لیے مختص ہوتی ہے اور اگر یہ قطہ اراضی سڑک کے کنارے ہو تو اور بھی پسند خاطر سمجھاجاتا ہے۔ اس طرح بہترین زرعی اراضی اورکمرشل زمین قبرستان کی نذر کی جاتی ہے ورنہ وزیر قبائل میں غیر آباد اور بنجر زمین اور پتھریلی زمین قبرستان کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ قبیلہ داوڑ بھی بنوزئی کی تقلید کرتے رہے ہیں۔ بنوزئی میں دیگر افغان معاشرہ کی طرح غمی خوشی، تجہیز و تکفین اشتراک عمل سے ہی انجام پاتی ہے۔ اگر کوئی کسی وجہ سے شرکت سے معذور رہے تو اس پر نوغہ یعنی جرمانہ لگایا جاتا ہے۔

بنوں میں آباد مختلف اقوام

ترمیم

ابتدا ء میں بنوں میں ہندو اور آریائی آباد تھے۔ بنوں میں جو ابتدائی افغان آباد ہوئے وہ بارکزئی اور منگل قبائل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بارہویں صدی میں سلطان محمد غوری کے ساتھ یہاں آئے اور یہاں آباد ہو گئے۔ ان لوگوں نے دریائے کرم سے نہر کچکوٹ نکالی اور زراعت شرور کی۔ بمشکل نصف صدی گزاری ہوگی کہ ان میں بے دینی اور بے اتفاقی نے سر اٹھایا۔ اور وہ اپنے پیر و مرشد شیخ محمد روحانی کو عشر دینے سے انکاری ہوئے اس بنا پر وہ ناراض ہو گئے۔ اور وہ علاقہ شوال چلے گئے اور انھوں نے وہاں کے سردار شاہ فرید عرف شیتک جو پہلے ہی سے اپنے ہمسایہ قبیلہ وزیروں سے سخت پریشان تھے، کو بنوں پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔

انھوں نے موقع غنیمت جانا اور ایک لشکر کو ترتیب دیا اور اولادِ شاہ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ چنانچہ بیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ بنوں کی جانب روانہ ہوئے۔ لشکر کی قیات کیوی، سوری پسرانِ شیتک اور شاہ بین پسرِ شاہ محمد روحانی نے کی اور یہ لشکر دریائے ٹوچی کے جنوبی کنارے پر خیمہ زن ہوا۔ اور یہاں سے بارکزئی اور منگل قبیلہ کے سرداروں کے پاس قاصد روانہ کیے اور انھیں پیغام بھیجا کہ یا تو بغیر کشت و خون کے وہ لوگ یہاں سے چلے جائیں اور اگر بنوں میں ان کو رہنا ہو تو انھیں بنیادی حقوق سے محروم ہونا پڑے گا۔ اور اگر مزاحمت کریں گے تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔


بارکزئی اور منگل قبائل نے پہلی صورت قبول کر لی اور اس طرح براستہ ٹل سے ہوتے ہوئے پاڑہ چنار اور پھر خوست کی سرحد پر آباد ہوئے۔ کچھ کو اولادِ شیتک نے قتل کیا اور کچھ ہندوستان کی طرف چلے گئے۔ کچھ کو یہان پر رہنے دیا گیا۔ جو اب بھی بنوں میں کہیں کہیں آباد ہیں۔

دورحاضر کے قبائل

ترمیم

اور کچھ

قبائیل آباد ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Muhammad Hayat Khan (1867)۔ Hayat E Afghani By Muhammad Hayat Khan Published In 1867 Complete Book In Urdu 

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی راوبط

ترمیم