1911ء کو کاریز مستونگ میں حاجی محمد قاسم کے ہاں پیدا ہوئے ان کا تعلق بلوچ قبیلے ( رند ) سے ہے آپ دیہوار بلوچ تھے آپ اپنے والد کی وفات کے چار ماہ بعد پیدا ہوئے والدہ نے آپ کو پڑھایا آپ کی تعلیم صرف مڈل تک تھی۔آپ کی کردار سازی میں آپ کے ماموں عبد الرحیم خواجہ خیل کا بڑا ہاتھ ہے انہی سے متاثر ہوکے آپ سیاست میں آئے اس زمانے میں یوسف عزیز مگسی کی تحریک اپنے عروج پر تھی 1935ء میں کوئٹہ زلزلہ کے وقت آپ کی عمر 23 سال تھی اپنے خاندان اور احباب کا غم انھیں کوئٹہ میں ٹکنے نہیں دے رہا تھا اور سواری نہ ملنے پر آپ پیدل ہی مستونگ کی طرف روانہ ہو گئے کوئٹہ سے کچھ فاصلے پر ہزار گنجی کے مقام پر پہنچے توایک جگہ اپنی قبر کے لیے منتخب کرلی۔ 1925 میں میر عبد العزیز کرد اور ان کے رفقا نے ایک طلبہ انجمن بنائی اس کا نام انجمن اتحاد طوفاں رکھا آپ اس کے سب سے کم عمر ممبر بنے۔ اس دور میں کچھ ترقی پسند انقلابی نوجوانوں جن میں محمد اعظم شاہوانی ، سید امیر شاہ، ملک سعید دیہوار اور چند دیگر نے انجمن اتحاد بلوچاں کے لیے فارم سے حلف اٹھایا اس قومی آزادی کی تحریک کو اس۔وقت شدید جھٹکا لگا جب یوسف عزیز مگسی 1935 کے زلزلہ کوئٹہ میں جان بحق ہو گئے۔1936 میں میر محمد فاضل خان محمد شہی نے مستونگ میں بلوچ ملازمین کی فلاح وبہبود کی خاطر ایک غیر سیاسی جماعت انجمن اسلامیہ قائم کی میر گل محمد خان نصیر اس کے صدر اور ملک عبد الرحیم خواجہ خیل اس کے جنرل سیکرٹری تھے عبد الکریم شورش اس میں دفتر خط کتابت کرتے تھے۔ 1973ء میں ان دوستوں نے قلات نیشنل پارٹی قائم کی اس کے صدر کرد صاحب تھے۔نائب صدر میر گل خان نصیر اور ملک فیض محمد یوسف زئی جنرل سیکرٹری تھے۔یہ پارٹی بلوچ ریاست میں قبائلیت کی بجائے ایک متحدہ قوم قائم کرنا چاہتی تھی ریاست میں جمہوری۔سیاسی اور معاشی اصلاحات کروانا چاہتی تھی اور عوام کے وقار اور توقیر کی بحالی کی جدوجہد کررہی تھی جلد ہی یہ پارٹی عام بلوچ آواز بن گئی انگریز اس تحریک اور پارٹی سے خوفزدہ ہو گئے۔چھ جولائی 1939ء کو پارٹی کا پہلا سالانہ کنونشن منعقد ہوا اجلاس کے دوسرے دن ایک سازش کے تحت خون خرابا کرانے کی کوشش کی گئی لیکن خان آف قلات سے فرمائش کی گئی کہ ملک عبد الرحیم خواجہ خیل۔مرزا فیض اللہ کوملازمتوں سے الگ کرکے عبد الکریم شورش۔مولانا عرض محمد اور مولانا محمد عمر کو ریاست قلات سے ریاست بدر کیاجائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔بابو نے 1939ء میں ہی اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی ہمدردی میں ریاست قلات کے اپنے سرکاری عہدے سے استعفی دے دیا۔پاکستان بننے کے بعد ملک صاحب ناظم قلات کے عہدے پر فائز ہوئے اور مئی 1948ء تک اسی عہدے پر کام کرتے رہے۔ بابو عبدلکریم نے حکومت ہند کو ایک ہفتہ روزہ اخبار ( تعمیر نو) جاری کرنے کی درخواست دی جو رد کردی گئی۔1941ء میں عبد الکریم شورش نے قاضی داد محمد کے ساتھ ملکر ( بلوچستان مزدور پارٹی) قائم کی فٹ محمد قاضی صدر اور شورش جنرل۔سیکرٹری منتخب ہوئے پارٹی نے دنیا کے۔مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ میں ایک جلسہ منعقد کرایا اور انگریز سرکار نے قاضی داد محمد کوگرفتار کر لیا جبکہ شورش بچ گئے۔ 17 اگست 1950ء کوعبدالکریم شورش۔محمد ہاشم خان غلزئی۔مولوی حکیم۔عبد اللہ جان بازی۔مرزا فیض اللہ۔عبد الصمد خان درانی اور محمد یوسف خان غلزئی کو ایف سی آر کے تحت گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کی وجوہ کو راز رکھا گیا ایک راتسٹی کوتوال کے پاک آپ میں۔تین دن ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں بعد میں جرگہ کے فیصلے پر کچھ جیل لے جایاگیا شورش اور عبد الصمد کو اکٹھے ہتھکڑی لگائی گئی اور جولان بھی لگائے گئے۔اور1951ء میں شورش پونچھ جیل سے واپس کوئٹہ منتقل کر دیا گیا جیل سے رہائی کے بعدشورش بابو۔میر غلام محمد شاہوانی۔اور میر گل خان نصیر کے ساتھ اخبار (برائے وطن)نکالنے میں مصروف ہو گئے۔بابو عبد الکریم شورش نے باقاعدہ صحافت کی ابتدابرکت علی آزاد کے ہفتہ روزہ (زمانہ) سے کی اس کابلوچی صفحہ عبد الکریم شورش خود مرتب کرتے تھے آپ ایک دن عبد اللہ جان جمالدینی کے پاس آئے اور بتایا کہ مجھے (بولیں دور) کے نام۔سے اخبار نکالنے کی اجازت مل رہی ہے مگر حکومت کی پالیسی ہے کہ میرے بینک میں کم ازکم پانچ ہزار روپے ہونے چاہئیے عبد اللہ جان جمالدینی نے اپنے دوست ملک عثمان کاسی کویہ بات بتائی انھوں نے خوشی سے بابو عبد الکریم شورش کے اکاونٹ میں پانچ ہزار روپے جمع کرائے اس دور میں یہ رقم بہت بڑی رقم تھی۔ملک عثمان کاسیکافراخ دل۔کشادہ سینہ اور حب الوطنی نہ ہوتی تو بلوچستان کے عوام کو نوکیں دور جیسا رسالہ قطعانصیب نہ ہوتا 8 جون 1962ء کو ایوب خان نے مارشل لا ختم کر دیا اور ملک میں نئے دستور کا نفاذ کیا تو اسی روز کوئٹہ سے بلوچستان میں دنیا کا واحد اخبار ہفت روزہ ( نوکین دور ) جاری ہوا اخبار کی افتتاحی تقریب پریس کلب کوئٹہ میں 8 جون 1962 کی شام کو منعقد ہوئی یہ بلوچی ہفت روزہ 8 دسمبر 1963 سے اردو اضافے کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوا 1968 میں نوکین دور کا دفتر کراچی میں بھی کھولا گیا لیکن عدم توجہی کے باعث بند کر دیا گیا۔ایک مرتبہ نوکین دور کے کاتب محمد عارف نے بابو عبد الکریم شورش سے پیسوں کا مطالبہ کیا اور کہ اشورش بابو اب پیسوں کے بغیر کام۔نہیں ہو سکتا بابو نے اس کی طرف دیکھا اور کچھ نہ کہا اگلے دن جب بابو دفتر آئے توان کے ہاتھ میں ایک۔رومال تھا اور کہا محمد عارف یہ کسی شمار کے پاس لے جاو جو کچھ ملے اس سے کام چلاو اس رومال میں کے اندر کانوں کی تین چار بالیاں اور ایک انگوٹھی تھی کچھ دیر تعارف بابو شورش کو دیکھتے رہے پھر کہا بابو ! اگر بہن کے زیور ہیں تو مجھ پرانی کی رقم حرام ہے زیور تو میری بیوی کے گلے میں بھی ہے بابو متعارف جیسے لوگ ہی سمجھ سکتے تھے یہ کمال بھی بابو کو جاتا ہے کہ وہ ایک پنجابی سے بلوچی لکھواتے رہے اور عارف صاحب پوری ایمانداری سے نوکین دور کو زندہ رکھنے کے لیے بابو کا ساتھ دیتے رہے۔ورنہ اپنے ہم زبانوں کی حوصلہ شکنی کا اندازہ تو بابو کی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ خدا بخشے ایک زمرد حسین تھے جو چھپائی کی اجرت برائے نام لیتے اور اکثر اوقات وہ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو یہ ہوتا کہ کاغذ بھی پلے سے خرید کر شورش بابو کانوکین دور چھاپ دیتے مگر زمرد حسین تھے کتنے؟ اور زمرد حسین ہیں کتنے؟۔ عبدلکریم ذہنی اور جسمانی طور پر کمیونسٹ تحریک میں پوسٹ تھے وہ۔انسان کے ہاتھوں انسان کی۔معاشی استحصال۔تذلیل اور قتل وقتا کے سخت خلاف تھے اور ایسے معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے جس میں کوئی ڈاکہ نہ ہو۔ڈنڈا نہ ہو۔ چیخ کراہ نہ ہو۔جنگ۔تباہی بربادی۔لوٹ مار یا کوئی تخریبی مصیبت نہ ہو لہذا انھوں نے اپنے نام کے ساتھ شورش کو الگ کر دیا اور شورش کی جگہ امن کا تخلص اپنایا یہ دسمبر 1969 میں تبدیلی کاواقع ہوا پھر انھوں نے اپنے بیٹے کا نام امن دوست رکھا۔ان کے بڑے فرزند شہک بلوچ میرے بھائیوں جیسے دوست ہیں اور میں نے نوکین دور میں 1985 سے ان کے ساتھ کام کیا ۔ آپ بلوچستان میں مینار امن قائم کرکے اس کو دارلامن بنانا چاہتے تھے لیکن بلوچستان میں ان کی شخصیت کو کسی نے قبول نہیں کیا وہ سیاسی۔ادبی۔ قومی اور لسانی بنیادوں پر مخالفت کانشانہ بنتے رہے لوگوں نے بلوچستان کے اس محسن سے بے وفائی کی پھر 14 دسمبر1986 کی صبح سات بجے اس بڑے صحافی اور بلوچستان میں سیاست کی روشنی کے اس منبع پروموٹ نے نگل لیا اور وہ نہایت خاموشی سے سول ہسپتال کوئٹہ میں مر گیا اس وقت ان کی عمر 70 برس تھی ۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق چلتن کے دامن میں سڑک کے کنارے دفن کردی گی جہاں آج بھی وہ امن کا مینار اور ان کا مرقد امن کی علامت بنا خاموش احتجاج کررہا ہے ۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حوالہ از( بابو عبد الکریم شورش۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔ اقتباسات)۔ تحریر ڈاکٹر عبد الرشید آزاد ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ 2017۔