رند
رند بلوچوں کا اہم ترین ماخذ ہے اور حقیقت میں براہوئی رند کو بلوچ کا مترادف سمجھتے ہیں ۔ ان کے خالص ہونے پر اس قدر شہرت ہے کہ ہر بلوچ اپنے کو رندوں کا ہم نسل بتانے کی کوشش کرتا ہے ۔ فارسی میں اس نام کے معنی عیاش ، شورش پسند ، لا ابالی اور خطرہ آزما کے ہیں ۔ مکران کے علاقے مند میں ان کی بڑی آبادی ہے ۔ وہ شوران کے رند انھی کی نسل کے مدعی ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ ، ،گھوٹکی ،ملتان ، جھنگ ، شاہپور اور ساہیوال میں بلوچوں کی بعض بستیاں ہیں جو رند کہلاتے ہیں ۔
نسب کی عزت
ترمیمہیوگربکر کا کہنا ہے کہ تمام بلوچ رندوں سے اپنا رشتہ جورنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہمسائے ان کا احترام کرتے ہیں اور تمام بلوچ روایات ان کے ہیرو میر چاکر خان رند کے گرد گھومتی ہیں ۔ روایات کے مطابق رند کرمان سے نکلنے کے بعد کیچ اور کولواہ میں رہے ۔ جہاں اب بھی رند موجود ہیں ۔ پھر سندھ آئے اور وہاں سے پنجاب چلے گئے ۔ بلوچ روایتوں کے مطابق میر جلال خان کا بڑا بیٹا رند تھا ۔ جس کی سربراہی میں رند گیارویں صدی میں مکران آئے اور تقریبا پانسو سال وہاں رہے،
انفرادیت
ترمیمرندوں کا زوال انفرادیت پسندی سے منسوب کیا جا سکتا ہے ، جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا ہے اور جس کے لیے وہ پورے علاقہ میں مشہور ہیں ۔ موکلر نے لکھا ہے کہ اس قبیلہ نے کبھی کسی اقتدار کو تسلیم نہیں کیا اور اس کا کوئی فرد کسی کا تابع نہیں ۔ لہذا قبیلہ کا کوئی مسلمہ سردار نہیں ہے اور اس احساس برتری کی ایک مثال ہے کہ جب میر چاکر رند دلی گیا تو وہ تخت پر بیٹھ گیا ۔ اس کے دیگر ساتھی تخت کے بازووَں اور دیگر حصوں پر بیٹھ گئے ایک ایک کو جگہ نہیں ملی تو وہ تخت کی چوٹی پر بیٹھ گیا ۔ جس سے تخت ٹوٹ گیا اور وہ سب گر پڑے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انفرادیت پسندی کی پیدا کردہ دھرے بندی رندوں کے معاملات کو انتہائی مشکل بنادیتی ہے ۔ اگرچہ وہ بحران میں مشترکہ دشمن کے خلاف اکھٹا ہو سکتے ہیں تاہم ان کے بعض پاڑے اپنی شورش پسندی میں مشہور ہیں ۔
ماخذ
ترمیمرندوں کا بیان ہے کہ ان کے آبا اجداد حلب،شام سے کرامان آئے تھے اور دریائے جناب کے منبع اور دریائے بمپور کے درمیان وہ رہے اور اس کے بعد وہ مکران کی طرف بڑھے ۔ لیکن آمد کی تاریخ کا تعین ممکن نہیں ۔ یہ کم و بیش عربوں کے ہند پر وقت مانی جا سکتی ہے ۔ مقامی معلومات کے مطابق یہ سلطنت خلفاء کے زوال کے بعد رند مکران میں عراقیوں کے جانشین ہوئے ۔ ان کی روایات تحفہ الکرام میں قبیلہ کی توسیع کو میر جلال خان سے منسوب کرتی ہے جو ہارون مکرانی کی اولاد میں سے تھا ۔ وہ حجاج (507ء) کے وقت مکران کا گورنر تھا ۔ پندرہویں صدی کے قریب رندوں کا ایک حصہ مشرق کی طرف وادی سندھ اور شمال مشرق کی قلات چلا گیا ۔ مشرقی بلوچوں کے منظوم قصوں کا ہیرو میر چاکر اشل و قلات (کولواہ زیریں ) میں اس وقت پیدا ہوا ۔ اس کے بعد مکران میں رندوں کی طاقت کا انحاط پزیر ہو گئی ۔ لیکن وہ اب بھی فخر ، خود پسندی اور بلوچ ضابطہ اخلاق کے سلسلے میں بہت حساس ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جام جام ہو سکتا ہے ۔ لیکن وہ نسلاً جدگال ہے لہذا وہ بلوچوں کی شاہنا نسل کا ہم عصر کیسے ہو سکتا ہے ان کی پسندیدہ کہاوت ہے ۔
بالا الذکر ہو چکا ہے کہ رند فارسی کلمہ ہے ۔ جس کے معنی عیاش ، متوالا اور شورش پسند کے ہیں ۔ کہا جاتا کہ میر جلال خود رند تھا ۔ اس کی لڑکی مائی جتو کی شادی حاجی مراد سے ہوئی وہ بھی رند تھا ۔ اس طرح میر جلال کے لڑکے رند ، لاشاری ، ہوت اور کورائی بھی رند تھے ۔ یہ روایات کتنی بھی بے اصل ہو مگر اس بات کی نشادہی کرتی ہے کہ رند یا بلوچ مختلف قبائل کا مجموعہ ہے ۔ مثلاً ہوت جو مکران میں قدیم ماخذ رکھتے ہیں وہ انکار کرتے ہیں کہ رندوں سے ان کا کوئی رشتہ ہے ۔
ٍٍجمہوریت پسندی
ترمیممکرانوں کے رندوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس قبیلہ نے کسی کا اقتدار تسلیم کیا ۔ کیوں کہ ان کی جمہوریت پسندی انھیں سردار چنے کا موقع نہیں نہیں دیتی ہے ۔ یہ کوئی حتمی کلیہ نہیں ہے ۔ ہم مکران کے رندوں کو دیکھ کر اس کا اطلاق دوسرے رندوں پر نہیں کرسکتے ہیں ۔ مکران میں دوسرے بلوچ قبائل کا بھی یہی حال ہے ۔ مثلاً ہوت اور یہ مکران میں ایک گروہ نہیں بلکہ وہ درحقیقت میں چھوٹے چھوٹے آزاد گروہوں کا مجموعہ ہیں ۔ دوسرے قبائل کی طرح اس میں بھی بیرونی عناصر شامل ہیں ۔ جیسے مندانی جن سے انھوں نے مند حاصل کیا تھا ۔ وہاں ان میں انتشار کی وجہ سے ان کا کوئی سردار نہیں ۔ اگرچہ یہ بحران کے وقت کسی کو اپنا قائد اور ترجمان چن لیتے ہیں ۔
درجہ
ترمیممکران میں بلوچ قبائل امتیازی حثیت نہیں رکھتے تھے ۔ ان کا درجہ حکمران قبائل نوشیروانی ، گچگی اور بزنجو کے بعد آتا تھا ۔ رند دوسرے قبائل کی طرح ان کے زیر دست تھے ۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران جب چاہتے ان کا خون بہاتے تھے اور انھیں کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا ۔ مکران میں رند نوشیروانیوں کے زیر تسلط ہیں اور ان کا وہاں درجہ بالادست یا دوسرا ہے ۔ اس طرح شوران میں بھی رندوں کا مسلمہ سردار موجود ہے ۔ اس طرح بلوچوں ، براہویوں ، [[جگدالی[]وں اور جاٹوں میں یعنیٰ بلوچستان کا کون ایسا قبیلہ ہے جس میں رندوں کا طائفہ موجود نہیں ہے ۔ اس طرح وہ قبائل جو زیر دست مانے جاتے ہیں مثلا دہوار ان میں بھی رندوں کا طائفہ موجود ہے ۔ خود مکران کے رند نوشیروانیوں کے زیر دست تھے ۔ اس طرح شوران رند قبیلہ کا سردار ساروان کے سردار کا زیر دست تھا اور وہ انھیں ایک ہزار لشکری فراہم کرتے تھے ۔ بالا الذکر رندوں کی ہمایوں کے دہلی جانے کی تاریخ سے ماخذ نہیں ہے ۔ یہ اور رندوں کی دوسری اور روایتیں مری بگٹی کے علاقہ لوک گیتوں میں ملتی ہیں ۔ اسے ہم نسلی تفاخر کی وجہ سے اہمیت نہیں دے سکتے ۔ ویسے بھی یہ تاریخ سے ماخوذ نہیں ہیں،
شخصیات
ترمیمتبصرہ
ترمیماس بحث سے واضح ہوتا ہے رند کوئی نسلی وحدت نہیں ہے بلکہ مختلف نسلی گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جو حالات کے تحت متحد ہو گئے تھے ۔ میر جلال خان کو رند بتایا جاتا ہے اور اس کے باوجود رندوں کا ذکر سولویں صدی سے پہلے نہیں ملتا ہے ۔ یہ وہ وقت تھا جب منگولوں اور اس کے بعد تیموریوں کے حملے افغانستان اور ایران پر ہو رہے تھے ۔ اس کا مطلب ہے یہ وہ بہادر ہیں جو منگولوں کے خلاف شورش برپا کر رہے تھے اور ان کے خلاف مزاحمت کی ۔ ان کی اس بہادری اور شورش زدگی کی وجہ سے انھیں رند کا خطاب ملا ہے ۔ ایرانی بلوچستان میں رندوں کا ایک طاءفہ ہے اور وہ رندانی کہلاتے ہیں ۔
ماخذ
ترمیمبلوچستان گزیٹیر
ہتو رام ۔ بلوچستان
برگیڈیر ایم حسن عثمان ۔ بلوچستان