باطنی اعمال قلب، نیت اور ارادے سے متعلق اعمال کو اعمالِ باطنی کہتے ہیں ۔

  • ابتدا میں اعمال ظاہر و باطن ایک کہلاتے بعد میں متاخرین کے نزدیک اعمال ظاہری سے متعلقہ امور کا نام فقہ ہو گیا اور اعمال باطنی سے متعلق امور کا نام ’’تصوف‘‘ ہو گیا
  • باطنی اعمال مثلاً :مقاماتِ احوال یعنی تصدیقِ ایمان،یقین، اِخلاص، معرفت، توکل،محبت، رضا،ذِکر،شکر،توبہ،خشیت، تقویٰ،مراقبہ،فکر،اعتبار، خوف، اُمید، صبر، قناعت،تسلیم،تفویض، قرب، شوق، وجہ، حزن، ندامت، حیاء، شرم، تعظیم اور ہیبت وغیرہ۔ ان تمام اعمالِ باطنی کا اپنا اپنا معنیٰ اور مفہوم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی صِحّت و عدم صِحّت پر آیاتِ قرآنیہ اور اَحادیثِ نبویہ شاہد ہیں ۔[1]
  • اسی لیے صوفیہ کرام کا قول ہے کہ وہ حقائق و معارف جو ہمارے قلب پر منکشف ہوتے ہیں، ان کو ہم قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اگر قرآن و سنت کے مخالف نہ ہوں تو ہم ان کو قبول کرتے ہیں، ورنہ نہیں۔ چنانچہ ابوسلمان دارانی فرماتے ہیں کہ ’’اکثر میرے دل میں کوئی نکتہ اسرار صوفیہ میں سے آتا ہے تو میں دو عادل گواہوں قرآن و سنت کی گواہی کے بغیر اس کو قبول نہیں کرتا‘‘۔ اسی طرح ابوخراز فرماتے ہیں کہ ’’جو باطنی معاملہ ظاہر (قرآن و سنت) کے خلاف ہو وہ باطل ہے ‘‘۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. الشيخ السراج الطوسی - اللمع فی التصوف - ص23 ۔