نتائجیت
نتائجیت (انگریزی: Pragmatism) ایک فلسفیانہ روایت ہے جس کا آغاز ریاستہائے متحدہ امریکا میں 1870ء کے لگ بھگ ہوا۔[1] اس کے آغاز کا شرف عام طور پر ولیم جیمس، جان ڈیوے اور چارلس سینڈرس پیئرس کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ پیئرس نے آگے چل کر اپنے نتائجی کلیہ میں یہ تعریف پیش کی کہ "اپنے تخیل کی اشیا کے عملی اثرات پر غور کیجیے۔ پھر آپ کے ان اثرات کا تخیل ہی آپ کا اس شے کا تخیل ہے"۔[2]
نتائجیت کی ضرورت حقیقی زندگی کی وجہ سے ابھرتی ہے۔ یہ نتائج اور مقاصد کے حصول پر مرکوز ہے اور معینہ اور دائمی اقدار سے خالی ہے۔ یہ فعال ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ تغیر پزیر بھی ہے۔ اسی وجہ سے اسے مستقبلیت سے بغاوت بھی سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ حقیقت اکثر بنتی رہتی ہے اور کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ لوگوں کے فیصلے اپنے آپ میں صحیح یا غلط نہیں ہوتے۔ خیالات کا شاید ہی کوئی نظام ہے جو ہر زمانے میں بر حق ثابت ہو۔ یہ انسانیت دوست بھی ہے، کیوں کہ یہ انسانی زندگی اور انسانی دلچسپی کی اشیاء پر مرکوز ہے، نہ کہ کوئی قائم شدہ مسلک پر۔ اس وجہ سے یہ انسانیت کی عکاسی ہے۔ نتائجیت عمل آوری کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس سے عمل آوری اور ریاض جیسے امور بھی وابستہ ہیں۔ مثالیت پسند آسمانی اقدار کو پیش کرتے ہیں، جن تک انسانوں کی رسائی مشکل ہے۔ نتائجیت ان معیارات پر مرکوز ہے جنہیں انسان حاصل کر سکتا ہے۔ نتائجیت پسند لوگ چونکہ زمینی حقیقت اور انسانی سرشت پر مرکوز ہوتے ہیں، اس وجہ یہ لوگ مقاصد کے حصول پر ہی زیادہ توجہ دیتے ہیں۔[3]
عملی مثالیں
ترمیم- چین کے قائد ڈینگ زیاؤ پینگ کا قول مشہور ہے:
” | اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی سیاہ ہے یا سفید جب تک وہ چوہوں کو پکڑتی رہے۔[4] | “ |
یہ اور اس طرح کے اقوال چین کے سیاسی قائدین کی لچک داری اور سیاسی مصلحت اندیشی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چین کبھی سخت گیر کمیونسٹ ملک تھا۔ مگر جب کمیونزم کو زوال ہوا، تب وہ کھلے بازار کا ہیئت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ جدید دور میں بھی دستوری طور پر چین اشتراکیت پر عامل ہے تاہم یہ نرمی کلی مذہبی آزادی یا جمہوریت اور آزادیٔ خیال کے معاملے میں خاصی تنگ نظر واقع ہوئی ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Pragmatism۔ 13 ستمبر 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2013
- ↑ Peirce, C. S. (1878), "How to Make Our Ideas Clear", Popular Science Monthly, v. 12, 286–302. Reprinted often, including Collected Papers v. 5, paragraphs 388–410 and Essential Peirce v. 1, 124–41. See end of §II for the pragmatic maxim. See third and fourth paragraphs in §IV for the discoverability of truth and the real by sufficient investigation.
- ↑ "Pragmatism in Education: Study Notes"۔ 4 نومبر، 2015
- ↑ "Deng Xiaoping Quotes"۔ BrainyQuote