حاجیہ سیدہ نصرت بیگم امین، بانو امین، لیڈی امین ( فارسی: بانو امين‎ ؛ 1886-1983) کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔

بانو امین
(فارسی میں: بانو امین ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1886ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصفہان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1983ء (96–97 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصفہان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ متصوف ،  الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ایران کی سب سے زیادہ اعلی مرتبت فقیہا، مذہبی عالم اور عظیم مسلم صوفی ( عارف) مانی جاتی ہیں۔

اجتہاد ترمیم

ایک خاتون مجتہده کی حیثیت سے انھوں نے متعدد بار اجتہاد کیا اور اس اجتہاد کی جازت انھیں آیت اللہ محمد کاظم حسینی شیرازی (1873-1947) اور مفتی اعظم آیت اللہ عارف سے حاصل ہوتی رہی۔[1]

اصفہان میں بانو امین کا مقبرہ

انھوں نے خواتین اور مرد علما کو اجتہاد کے بے شمار اجازتیں مرحمت کیں ، ان میں سید مرعشی نجف بھی تھے۔

بانو امین کے آٹھ بچے تھے، ان میں سے صرف ایک ہی ان کے بعد زندہ رہا (سید محمد علی معین امین)۔

تصانیف اور علمی کارہائے نمایں ترمیم

انھوں نے اسلامی علوم کے بارے میں متعدد کتابیں لکھیں ، جن میں 15 جلدوں میں تفسیرقرآن بھی شامل ہے۔

1965 میں مکتب فاطمہ کے نام سے اصفہان میں ایک مکتب قائم کیا۔ مکتب کی ابتدا 1992 سے بانو امین کے سب سے ممتاز طالب علم ، زین السادات ہمایونی (سن 1917) نے کی تھی۔ 1992 کے بعد ، ہمایونی کے رشتہ دار ، حج آقا حسن امامی نے انتظام سنبھال لیا۔ چند منتخب تصانیف

  • ال اربعین الہاشمیہ
  • جامعی الشتاعت
  • سیر و سلوک در روش اولیاء اللہ
  • اخلاق و راہی سعادت: اقتباس و ترجمہ ازطہارت العراقی ابن مسکوی
  • روشِ خوشبختی و توسیع بہ خاہاران اِیمانی
  • مخزن العرفان در علوم القرآن
  • مخزن ال لالی در فضیلت مولا موالی حضرت علی ابن طالب
  • معاذ یا آخرین سیر بشر

وفات ترمیم

انھیں اصفہان میں تخت فولاد قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ [2]

حوالہ جات اور حاشیے ترمیم

  1. See ʻAmū Khalīlī, Marjān. Kawkab-i durrī: [sharḥ-i ahvāl-i bānū-ye mujtahidah Amīn], (Tehran: Payām-e ʻAdālat, 1379 [2000]).
  2. See Badry, Roswitha. ‘Zum Profil weiblicher ‘Ulama’ in Iran: Neue Rollenmodelle für ‘islamische Feministinnen’?’, in Die Welt des Islams XL, no. 1. (March 2000), 7-40.