بانو امین
حاجیہ سیدہ نصرت بیگم امین، بانو امین، لیڈی امین ( فارسی: بانو امين ؛ 1886-1983) کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔
بانو امین | |
---|---|
(فارسی میں: بانو امین) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1886ء اصفہان |
وفات | سنہ 1983ء (96–97 سال) اصفہان |
شہریت | ایران |
عملی زندگی | |
پیشہ | متصوف ، الٰہیات دان |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی |
درستی - ترمیم |
ایران کی سب سے زیادہ اعلی مرتبت فقیہا، مذہبی عالم اور عظیم مسلم صوفی ( عارف) مانی جاتی ہیں۔
اجتہاد
ترمیمایک خاتون مجتہده کی حیثیت سے انھوں نے متعدد بار اجتہاد کیا اور اس اجتہاد کی جازت انھیں آیت اللہ محمد کاظم حسینی شیرازی (1873-1947) اور مفتی اعظم آیت اللہ عارف سے حاصل ہوتی رہی۔[1]
انھوں نے خواتین اور مرد علما کو اجتہاد کے بے شمار اجازتیں مرحمت کیں ، ان میں سید مرعشی نجف بھی تھے۔
بانو امین کے آٹھ بچے تھے، ان میں سے صرف ایک ہی ان کے بعد زندہ رہا (سید محمد علی معین امین)۔
تصانیف اور علمی کارہائے نمایں
ترمیمانھوں نے اسلامی علوم کے بارے میں متعدد کتابیں لکھیں ، جن میں 15 جلدوں میں تفسیرقرآن بھی شامل ہے۔
1965 میں مکتب فاطمہ کے نام سے اصفہان میں ایک مکتب قائم کیا۔ مکتب کی ابتدا 1992 سے بانو امین کے سب سے ممتاز طالب علم ، زین السادات ہمایونی (سن 1917) نے کی تھی۔ 1992 کے بعد ، ہمایونی کے رشتہ دار ، حج آقا حسن امامی نے انتظام سنبھال لیا۔ چند منتخب تصانیف
- ال اربعین الہاشمیہ
- جامعی الشتاعت
- سیر و سلوک در روش اولیاء اللہ
- اخلاق و راہی سعادت: اقتباس و ترجمہ ازطہارت العراقی ابن مسکوی
- روشِ خوشبختی و توسیع بہ خاہاران اِیمانی
- مخزن العرفان در علوم القرآن
- مخزن ال لالی در فضیلت مولا موالی حضرت علی ابن طالب
- معاذ یا آخرین سیر بشر
وفات
ترمیمانھیں اصفہان میں تخت فولاد قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ [2]