سید شہاب الدین مرعشی نجفی

سید شہاب الدین مرعشی نجفی آیت اللہ بروجردی کے بعد شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ وہ 27 سال کی عمر میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ مرعشی شیخ عبدالکریم حائری اور آقا ضیاء الدین عراقی کے شاگردوں میں سے تھے اور سیدعلی قاضی، سید احمد کربلائی اور میرزا جواد ملکی تبریزی سے فیض حاصل کیا۔ سیاسی فکر کے لحاظ سے امام خمینی کے حامی تھے اور یہی فکر ان کے نمایاں ترین شاگردوں میں دکھائی دیتی ہے۔

سید شہاب الدین مرعشی نجفی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 21 جولا‎ئی 1897ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجف   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 اگست 1990ء (93 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قم   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عراق   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مرجع   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مرعشی نجفی نے ایک کتب خانے کی بنیاد رکھی جو آج کتب کی تعداد اور قدیم اسلامی کتب کے قلمی نسخوں کے لحاظ سے، ایران کی پہلی بڑی اور دنیائے اسلام کا تیسری بڑی لائبریری سمجھی جاتی ہے۔ وہ کبھی سفر حج کے لیے مستطیع نہیں ہوئے۔ انھوں نے مرعشیہ، شہابیہ، مہدیہ اور مؤمنیہ نامی مدارس کی بنیاد رکھی۔

ان کی اہم ترین تالیفات میں تعلیقات احقاق الحق، مشجرات آل الرسول، طبقات النسابین اور حاشیہ بر عمدۃ الطالب شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابیں لکھنے کے لیے بعض ممالک کے دورے کیے اور مختلف ادیان و مذاہب کے علما کے ساتھ مباحثے کیے۔ آیت اللہ مرعشی کو ان کی وصیت کے مطابق قم کے خیابان ارم میں ان کے کتاب خانے میں سپرد خاک کیا گیا۔

اساتذہ

ترمیم
  • علم ریاضیات:
  1. عبدالکریم بوشہری المعروف بہ سعادت (متوفی سنہ 1327 ہجری قمری)
  2. عباس بن شیخ اسداللہ خلیلی معروف بہ اقدام
  3. عندلیب زادہ تہرانی
  4. آقا محمد محلاتی
  5. عبدالرحیم بادکوبہ ای (متوفی سنہ 1365 ہجری قمری)
  6. سید ابوالقاسم موسوی خوانساری (متوفی سنہ 1380 ہجری قمری)
  7. محمود اہری
  8. باقر ایروانی
  9. سید ہبة الدین شہرستانی
  10. میرزا حیدرعلی نائینی (تہران میں)
  • علوم غریبہ اور عرفانی سلوک:
  1. ابوالحسن ہندی حائری (متوفی سنہ 1345 ہجری قمری)
  2. محمد حسین بن محمد خلیل شیرازی (متوفی سنہ 1339 ہجری قمری)
  3. ضیاء الدین سرابی
  4. علی اکبر حکمی یزدی
  5. محمد حرز الدّین
  • علوم ادبیات:
  1. ان کی دادی: شمس اشرف بیگم
  2. والد: سید محمود مرعشی
  3. مرتضی طالقانی
  4. سید محمد کاظم خرم آبادی موسوی نجفی
  5. محمود حسینی مرعشی شوشتری
  • علم تفسیر:
  1. محمد حسین شیرازی
  2. شمس الدین شکوئی
  3. ابوالحسن مشکینی نجفی
  4. سید آقا شوشتری جزایری
  5. محمد جواد بلاغی
  6. فرج اللہ تبریزی
  • علم فقہ و اصول:
  1. سید آقا شوشتری، شرح لمعہ
  2. ابو الحسن مشکینی اردبیلی، کفایۃ الاصول
  3. نعمت اللہ لاریجانی، قوانین الاصول
  4. محمد حسین بن محمد خلیل شیرازی، من لایحضرہ الفقیہ
  5. شیخ احمد آل کاشف الغطاء (متوفی سنہ 1344 ہجری قمری)
  6. سید محمدرضا مرعشی رفسنجانی
  7. غلام علی قمی
  8. حبیب اللہ اشتہاردی
  9. میرزا حسن رشتی
  10. میرزا آقا اصطہباناتی
  11. سید علی طباطبائی
  12. عبد الحسین مرندی
  13. سید احمد بن محمد باقر بہبہانی حائری
  14. علی اصغر تبریزی نجفی
  15. محمد حسین بن علی شیخ العراقین
  16. شیخ علی نجفی (جو صاحب جواہر کے پوتے تھے)
  17. آقا ضیاء عراقی (متوفی سنہ 1361 ہجری قمری)، اصول کے آغاز سے بحث مطلق و مقید کی بحث تک
  18. محمد حسین تہرانی (متوفی سنہ 1340)
  19. شیخ عبدالکریم حائری یزدی (متوفی سنہ 1355 ہجری قمری)
  20. محمد رضا مسجد شاہی (متوفی سنہ 1362 ہجری قمری)
  • علم رجال:
  1. سید حسن صدر
  2. عبداللہ مامقانی نجفی
  3. ابوالہدی کرباسی
  4. شیخ موسی کرمانشاہی
  1. محمد اسمعیل محلاتی نجفی
  2. محمد جواد بلاغی
  3. ہبة الدین شہرستانی
  • علم حکمت و منطق:
  1. شمس الدین شکوئی قفقازی (منطق)
  2. علی محمد نجف آبادی (متوفی سنہ 1332 ہجری قمری)
  3. فاضل مشہدی (متوفی سنہ 1343 ہجری قمری)
  4. محمدطاہر تنکابنی (متوفی سنہ 1360 ہجری قمری)
  5. میرزا مہدی آشتیانی (متوفی سنہ 1372 ہجری قمری)
  • علم اخلاق و عرفان:
  1. سید علی قاضی طباطبائی
  2. سید احمد کربلائی
  3. میرزا جواد ملکی تبریزی
  4. میرزا علی اکبر حکمی یزدی
  5. محمد حسین قمشہ ای
  • علم انساب:
  1. والد سید محمد مرعشی (جنھوں نے انھیں "مشجرات سادات" کی تعلیم دی)
  2. سید محمد رضا بن سید علی المعروف بہ صائغ بحرانی غُرَیفی (متوفی سنہ 1339 ہجری قمری)
  3. سید مہدی موسوی بحرانی (متوفی سنہ 1343 ہجری قمری) [1]

آثار

ترمیم

آیت اللہ مرعشی نے اپنی حیات میں 150 سے زائد کتب اور رسائل کی تصنیف و تالیف کا اہتمام کیا۔[2] ان کی تالیفات یا تو زیور طبع سے آراستہ ہو کر عام لوگوں کے لیے دستیاب ہیں، بعض دیگر قلمی صورت میں ہیں، بعض تلف ہوئی ہیں اور بعض تالیفات جو منتشر اوراق کی صورت میں ہیں اس وقت تدوین کے مرحلے سے گذر رہی ہیں۔ ان کی بعض تالیفات حسب ذیل ہیں:

  • قرآنی علوم:
  1. التجوید
  2. الرد علی مدعی التحریف
  3. حاشیۂ علی انوار التنزیل بیضاوی
  4. سند القراء والحفاظ
  5. مقدمۂ تفسیر الدر المنثور سیوطی
  • ادبیات:
  1. قطف الخزامی من روضۃ الجامی (جامی کی شرح کافیہ پر حاشیہ)
  2. المعول فی امر المطول (شرح تلخیص تفتازانی پر حاشیہ)
  3. الفروق
  • حدیث، ادعیہ و زیارات:
  1. مفتاح احادیث الشیعہ
  2. شیخ حر عاملی کی کتاب الفصول المہمہ پر حاشیہ
  3. کتاب من لا یحضرہ الفقیہ پر مختصر حاشیہ
  4. ادعیہ اور زیارات کا ایک مجموعہ
  5. شرح دعائے سمات
  6. شرح زیارت جامعۂ کبیرہ
  7. مفاتیح الجنان پر مقدمہ]]
  8. شمس الامکنہ و البقاع فی خیرة ذات الرقاع
  9. صحیفہ کاملہ سجادیہ کے بارے میں بعض فوائد
  1. شیخ انصاری کی کتاب فرائد الاصول پر حاشیہ
  2. حذف الفضول عن المسالک
  3. توضیح المسائل
  4. راہنمائے سفر مکہ و مدینہ
  5. الغایۃ القصوی (عروۃ الوثقی پر استدلالی حاشیہ)
  6. مسارح الافکار فی توضیح مطارح الانظار (شیخ انصاری کی تقریرات پر حاشیہ)
  7. مصباح الناسکین (مناسک حج) وغیرہ
  • رجال، شرح حال و أنساب:
  1. التبصرۃ فی ترجمۃ مؤلف التکملۃ (میرزا محمد مہدی کشمیری کے حالات زندگی سے متعلق)
  2. تراجم اعیان السادة المرعشیین
  3. سادات العلماء الذین کانوا بعد الالف من الہجرة
  4. امامزادہ سلطان علی فرزند امام باقر علیہ السلام کے حالات زندگی
  5. رسالہ طریفہ، شیخ محمد جعفر کمرہ ای کے حالات زندگی کے بارے میں
  6. نصر بن مزاحم منقری کے حالات پر ایک رسالہ
  7. الفوائد الرجالیہ
  8. وسیلة المعاد فی مناقب شیخنا الاستاذ
  9. وفیات الاعلام
  10. مشجرات آل رسول الاکرم یا مشجرات الہاشمیین (انساب میں ان کی مفصل ترین کتاب)
  11. مدینہ منورہ کے سادات کے بارے میں ایک رسالہ
  12. سادات حسینی کاشانی کا شجرہ نامہ
  13. مزارات العلویین
  14. سید عمید الدین نجفی کی کتاب "بحر الانساب" پر ایک حاشیہ
  15. غیر سادات کے انساب اور نسل شناسی کے بارے میں ایک کتاب
  • کلام، منطق و علوم غریبہ:
  1. کتاب احقاق الحق کے ملحقات
  2. رفع الغاشیہ عن وجہ الحاشیہ ملا عبد اللہ یزدی بر تہذیب المنطق تفتازانی
  3. رمل میں کتاب "سرخاب" پر حاشیہ
  4. کتاب "سرالمکنون" پر حاشیہ
  5. نسمات الصبا در فواید علم رمل، حروف، اوراد و اذکار۔[3]

آیت اللہ مرعشی کی دیگر کتب "سفرناموں"، "اجازات" اور "اجوبۃ المسائل" اور "مکاتبات" کی صورت میں موجود ہیں۔

ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدامات

ترمیم

آیت اللہ مرعشی نجفی کی خدمات کے بعض نمونے حسب ذیل ہیں:

  • آیت اللہ مرعشی کا اہم ترین اقدام کتب خانے کی تاسیس اور قلمی نسخہ جات جمع کرنا ہے۔
  • سنہ 1339 ہجری قمری میں اپنے گھر کے قریب حسینیہ آیت اللہ مرعشی کی تاسیس؛
  • بحار الانوار کے مؤلف علامہ محمد باقر مجلسی کے مرقد کی تعمیر نو؛
  • ایران کے مذہبی شہر قم کے ریلوے اسٹیشن کی مسجد کی تعمیر نو ـ جس کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ـ جرمن مخالف اتحادی ممالک کی افواج نے گرجاگھر میں تبدیل کیا تھا؛
  • ایران کے صوبے لرستان میں ازنا ریلوے اسٹیشن کی مسجد کی تعمیر؛
  • ایران کے مذہبی شہر قم کے "کامکار ہسپتال" کے اخراجات شرعی وجوہات سے ادا کرنا؛
  • ایران کے مذہبی شہر قم کے نِکوئی اسپتال میں علاحدہ ڈسپنسری کی تاسیس؛
  • ایران کے مذہبی شہر قم کے نِکوئی اسپتال میں امراض قلب کے شعبے کی عمارت کی تعمیر؛
  • ایران کے مذہبی شہر قم کے میدان امام میں دارالشفاء آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے بہبود و بحالی مرکز کا قیام؛
  • ایران کے مذہبی شہر قم کے خیابان طالقانی کے آخر (اور کوئے نجفی) میں طلاب کے لیے 140 مکانات کی تعمیر؛
  • مشہد اردہال کاشان میں امام زادہ سلطان علی کے لیے برقی ضروریات پوری کرنے کے لیے موٹر خانے کی تعمیر؛
  • مختلف ممالک میں متعدد مساجد اور حسینیات کی تاسیس و تعمیر؛
  • سیلاب زدگان، مسلط کردہ جنگ کے پناہ گزینوں اور مقروضین کی امداد وغیرہ۔۔۔

وفات

ترمیم

آیت اللہ مرعشی نجفی مورخہ 7 صفر سنہ 1411 ہجری قمری / 29 اگست سنہ 1990کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور اپنی وصیت کے مطابق، قم کے خیابان ارم میں واقع اپنے کتب خانے میں سپرد خاک کیے گئے۔[4]

نیز ان کی وصیت کے مطابق وہ مصلٰی جس پر انھوں نے ستر سال عبادت کی تھی اور وہ لباس جو وہ عزائے امام حسین(ع) کے لیے زیب تن کیا کرتے تھے نیز کچھ مٹی جو انھوں نے ائمۂ معصومین علیہم السلام اور امام زادگان کے مراقد سے جمع کررکھی تھی، کو ان کے ساتھ قبر میں رکھا گیا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص54-58۔
  2. گلی زوارہ، جامع فضل و فضیلت، ص78۔
  3. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 62-64۔
  4. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 74۔