بَداء، علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی ظاہر اور آشکار ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں خداوندعالم کی جانب سے کسی ایسی چیز کے ظاہر اور آشکار ہونے کو بداء کہا جاتا ہے جس کی عام طور پر توقع نہیں رکھی جاتی۔ یعنی خداوندعالم کسی متوقع چیز کی جگہ ایک غیر متوقع چیز کو ظاہر کرتا ہے گویا خداوندمتعال متوقع چیز کو محو اور ختم کرکے اس کی جگہ غیر متوقع چیز کو ظاہر کرتا ہے جو عام طور پر انسانی عقل کے لیے قابل قبول نہیں ہوا کرتا چونکہ وہ اس سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن خداوندعالم دونوں چیزوں سے آگاہ ہے اور علم اور آگاہی کے ساتھ کسی مصالح اور مفاسد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایجاد کرتا ہے۔

عربی زبان میں ارادے میں تبدیلی آنے یا ایک نظریے کا دوسرے نظریے میں تبدیل ہونے کو بھی بداء کہا جاتا ہے لیکن چونکہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسان جہل کا شکار ہو یا قوت ارادہ میں ضعف پایا جاتا ہو اس لیے مسلمان متکلمین خداوندعالم کے افعال میں جب بداء سے بحث کرتے ہیں تو یہ معنی مراد نہیں لیا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں بعض آیات ہیں جو بداء کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی طرح روایات میں بھی بداء کے صحیح مفہوم پر عقیدہ رکھنے کو توحید اور خدا کی شناخت تک پہنچنے کے لیے ایک لازمی امر قرار دیا ہے۔ شیعہ روایات میں بداء سے متعلق تفصیل سے بحث ہوئی ہے منجملہ کتاب کافی میں ایک مستقل باب جو تقریبا 16 روایات پر مشتمل ہیں اسی بارے میں لکھی گئی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم