گوتم بدھ نے اگرچہ عورتوں کو اپنی جماعت میں جگہ دی تھی اور مردوں کی طرح عورتیں بھی بھکشونیاں بن سکتی تھیں لیکن حقیقت میں بدھ مت کا اصل مقصد عورتوں کو مردوں سے دور رکھنا ہی تھا کیونکہ بدھ مت میں تیاگ اور بیراگ کا ایک بڑا مقام ہے، حظ نفس کا نہیں۔ گوتم بدھ نے عورتوں کی مذمت نہیں کی لیکن ساتھ ساتھ صلاح دی کہ لوگ عورتوں کے خطرے سے بچے رہیں اور جہاں تک ممکن ہو، عورتوں سے دور رہیں۔ بدھ کے خیال میں مثالی زندگی وہ ہے کہ عورتوں سے دور رہا جائے اور ممکن ہو تو کسی بھی حالت میں ان سے ملے بغیر زندگی گزاری جائے۔[1]

عورتوں سے متعلق ایک بار مہاتما بدھ نے اپنے خاص شاگرد آنند سے کہا تھا:
آنند نے کہا: ”لیکن اگر انھیں دیکھنا پڑے تب؟“
بدھ نے فرمایا: ”بہت خبر دار رہو آنند۔“
پھر بھی مہاتما بدھ نے اپنے عام پیروکاروں اور گرہستوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہو اپنی عورتوں کو اپنا دوست سمجھو اور ان پر یقین رکھو۔ عام بھگتوں (متقیوں) کو یہ نصیحت کی کہ ماں باپ کی خدمت، بیوی اور بچوں کی صحبت اور پرسکون محنت ہی سب سے بڑے دعا ہے۔

بدھ مت میں جہاں میاں بیوی کے تعلق اور باہمی سلوک کے لیے بہت سے قواعد و قوانین کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں بیوی کے لیے اپنے خاوند کی تعمیل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ شوہر کے لیے فرمان بہرحال ہے کہ وہ اپنی بیوی کے اعتبار کو ٹھیس نہ پہنچائے، اس کی عزت کریں اور اسے کپڑے اور زیور دیں۔ بیوی کو شوہر پرستی اور کفایت شعاری کی تعلیم دی ہے۔ ماں کے لیے مہاتما بدھ کا احترام بہت اونچا ہے۔ بدھ، عورتوں کو بھی مردوں کی طرح بھکشونیاں بناتے تھے اور بدھ مت کے مطابق عورتوں کو نروان حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کو۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ بدھ کی زندگی میں 73 عورتوں اور 107 مردوں نے نروان حاصل کر کے انسانی زندگی کی بہترین حد تک پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ جب بدھ مت کی تبلیغ ہو رہی تھی، تبھی عورتوں نے سب سے زیادہ مالی مدد کی تھی۔ ایک اور عورت کے متعلق، جس نے بدھ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا تھا، بدھ نے کہا:
”ایک اعلٰی مذہبی عورت جو بھوکوں کو کھانا دیتی ہے، وہ اسے کھانے کے ساتھ چار چیزیں دیتی ہے: زندگی دیتی ہے، حسن عطا کرتی ہے اور خوشی و قوت دیتی ہے۔“[2]

بدھ نے ایک پیش گوئی یہ بھی کی تھی کہ ”عورتوں کو جماعت میں شامل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ 500 سال کے اندر اندر لوگ مذہبی ضوابط کو بھول جائیں گے۔“[3] بدھ نے واضح طور پر کہا تھا ”کسی بھی مت، نظریہ یا نظم و ضبط کے مطابق جہاں عورتوں کو گھریلو زندگی سے نکال کر گھر سے دور رہنے کی اجازت دے دی گئی، وہ مذہب یا مت زیادہ وقت تک ٹھہر نہیں سکتا۔“ مہاتما بدھ کی موت کے دو تین سو سال بعد اشوک اعظم نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو لنکا بھیج کر ایک جماعت قائم کی اور بھکشونیوں کا بھی ایک چھوٹا سا گروہ بنایا تھا۔ اشوک نے پاٹلی پتر میں بودھوں کی ایک مجلس کی اس وقت اس جماعت کے قانون اور ضابطوں کی تصحیح کی۔ اس مجلس میں بھکشونیاں، گرہست یا دونوں ہی شامل تھیں۔ کچھ بھکشونیاں بہت مشہور ہوئیں جن میں مہا پرجاپتی گوتمی، کھیما، اپالونا اور وساکھا قابل ذکر ہیں۔ ان عورتوں کا نام تیاگ، در گذر اور ریاضت کی وجہ سے امر ہو گیا اور بدھ مت کی تبلیغ میں ان عورتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔[4] تبت میں بدھ مت کی تبلیغ دو راج کماریوں نے کی تھی۔ انھوں نے تبت کے دار الحکومت لاشا میں بہت سے مندر بنوائے اور بہت سے مٹھ (مذہبی مدرسے) قائم کیے۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.budsas.org/ebud/whatbudbeliev/227.htm
  2. Diana Y. Paul, Frances Wilson (1985)۔ "Women in Buddhism: Images of the Feminine in the Mahayana Tradition"۔ University of California Press 
  3. "The Buddha's Opinions on Women and Nuns"۔ 14 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2018 
  4. Women in Buddhism: Profiles, Conversations, and Teachings - Lion's Roar
  5. Buddhist Studies: Buddhism & Women: Position of Women