برمکی خاندان کو عباسیہ عہد میں اقتدار نصیب ہوا اور انھوں نے 803ء تک وزارت کے منصب پر فائز رہ کر عباسیہ سلطنت پر بالواسطہ فرمانروائی کی۔ اس خاندان کا بانی خالد بن برمک ایک تاجیک نژاد نو مسلم تھا۔ جس کی ماں کو قطیبہ ابن مسلم نے 705ء میں بلخ سے گرفتار کرکے خالد کے باپ (جو ایک بدھ راہب خانہ کا منتظم ہونے کے باعث سردار کاہن یعنی (برمک) کہلاتا تھا) کے عقد میں دے دیا۔ اس کے بطن سے خالد ابن برمک پیدا ہوا جو برمکی خاندان کا سب سے پہلا وزیر بنا۔

برمکیوں کے بنی عباس کے شاہی خاندان سے بہت اچھے مراسم تھے۔ خالد کی ایک لڑکی کوعبداللہ السفاح کی بیوی نے دودھ پلایا۔ اسی طرح خالد کی بیوی نے بادشاہ وقت السفاح کی لڑکی کو دودھ پلایا۔ خالد کے فرزند یحٰیی نے ہارون الرشید کو تعلیم دی۔ ہارون الرشید سریرآرائے سلطنت ہوتے ہوئے بھی اپنے سابق استاد و محسن کو ابا کہہ کر پکارتا تھا۔ گویا برمکیوں کو عباسی دور حکومت میں وہ عروج حاصل ہوا جو بہت کم وزراء کو نصیب ہوا مگر اس اقتدار کے بعد جو زوال انھیں نصیب ہوا وہ بھی اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ 803ء میں جعفر بن یحٰیی پر ناگہانی عتاب نازل ہوا اور اسے کسی نامعلوم جرم کی پاداش میں موت کا حکم سنایا گیا۔ اس کے بھائی اور باپ کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اور باقی برمکیوں کو چن چن کر تہ تیغ کر دیا گیا۔ مورخوں نے اس خاندان کے زوال کی مختلف وجوہ پیش کی ہیں۔ جن میں سے بعض مذہبی اور سیاسی امور سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر اس کی وجوہ کچھ ذاتی اور انفرادی بھی تھیں جو پردہ راز میں رہیں۔ کیونکہ بعض مورخین کے قول کے مطابق ہارون الرشید نے ایک دفعہ طیش میں آکر کہا تھا۔ (اگر میرے کرتے کو بھی پتا ہو کہ میں نے برمکیوں کو کیوں قتل کیا تو میں اسے بھی پھاڑ ڈالوں گا۔ )

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم