برفانی تیندوا بہت کم نظر آنے والا ایک جانور ہے۔

شیر اور اس کی نسل کے دوسرے جانور جیسے باگھ، چیتا، تیندوے وغیرہ میں انسانوں کی ہمیشہ بہت دلچسپی رہتی ہے۔

یہ ’سنو لیپرڈ‘ یعنی برفانی تیندوئے ہیں جو بہت شاطر اور انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ برفیلے اور پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے ’گرے گھوسٹ‘ یعنی بھورا بھوت کہتے ہیں۔ یہ بمشکل دکھائی دیتے ہیں اور ان کو دور سے دیکھ پانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

برفانی تیندوئے وسطی اور جنوبی ایشیا کے بعض ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ بھارت میں یہ جموں و کشمیر کے لداخ اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

کچھ دنوں پہلے بی بی سی ارتھ کی ایک ٹیم، اس ’گرے گھوسٹ‘ کا کیمرے سے شکار کرنے کے لیے لداخ پہنچی تھی۔ اس ٹیم کی قیادت جسٹن اینڈرسن کے رہے تھے۔ وہ اس سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سنہ 2006 میں برفانی تیندوئے کی تصاویر لے چکے تھے۔ ان کی بنائی ڈاکیومنٹری کا سیکوئل بنانے کے لیے جسٹن کو دوبارہ اس علاقے میں آئے ہیں۔ مگر اب چونکہ پاکستان کے حالات بدل چکے ہیں اس لیے جسٹن اور ان کی ٹیم لداخ کے ہیمس نیشنل پارک پہنچی۔ یہاں کے حکام کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب سنو لیپرڈ انسانوں کو دیکھ کر زیادہ نہیں بھاگتے۔ اس لیے انھیں کیمرے میں قید کرنا قدرے آسان ہو گیا ہے۔

جب بی بی سی کی ٹیم نیشنل پارک پہنچی تو اس دوران 12 دنوں میں نو برفانی تیندوئے وہاں دیکھے گئے۔ پہاڑی علاقوں کی طرف روانہ ہونے سے پہلے اس ٹیم نے باقاعدہ ٹریننگ لی تھی۔ ان کے ساتھ مقامی لوگ بھی شامل تھے جو چیتوں کودور سے شناخت کر لینے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

یہاں برفانی تیندوئے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آ رہے تھے۔

بھیڑ بھاڑ دیکھ کر تیندوئے بدک جاتے، اسی لیے بی بی سی کی ٹیم نے دور دراز کے ان علاقوں کا رخ کیا جہاں سیاحوں کی بھیڑ نہیں تھی۔

بی بی سی کی ٹیم کو اپنے مشن میں کامیابی مقامی لوگوں کی وجہ سے ملی۔ تیندوؤں کے سپاٹرز،گائئڈز اور پاؤں کے نشانوں اور ٹریکرز کی مدد سے انھیں بہت کامیابی ملی۔

اکثر بی بی سی کی ٹیم کو پتھروں میں چھپے برفانی تیندوئے نہیں دکھائی دیتے تھے۔ تب انھیں سپاٹرز بتاتے تھے کہ وہاں چھپا ہے براؤن گھوسٹ۔

بی بی سی کی ٹیم نے پہلے ہفتے میں ہی تین برفانی تیندؤں کو کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا۔

یہ ان کا پورا خاندان تھا۔ جس میں ایک نر ایک مادہ اور اور ان کا ایک بچہ تھا۔

بھارت نے برفانی تیندوئے کی نسل کو بچانے کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ اس کی مدد سے لداخ کے پارک میں سنو لیپرڈ کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور امید کی ایک کرن جاگي ہے۔ تاہم ان کی رہائش والے علاقوں میں انسانوں کے عمل دخل سے انسان اور برفانی تیندوئے میں جھگڑا بڑھ رہا ہے اور اکثر شکست برفانی تیندوئے کی ہو رہی ہے۔ اس شکست کی قیمت وہ اپنی جان گنوا کر چکاتے ہیں۔

برفانی تیندوے، کسی ایک ملک کی بجائے بھارت پاکستان، چین، منگولیا، قزاقستان، كرغستان، نیپال، روس، تاجکستان اور ازبکستان کا مشترکہ حصہ ہیں۔

یہ تیندوئے بہت مشکل حالات میں رہتے ہیں۔ ان کے ٹھکانے بلند برفانی پہاڑ، تیز ڈھال والی چٹانیں اور پہاڑی علاقے ہیں۔ ایسی جگہوں پر بارش کم ہوتی ہے اور اکثر برفانی طوفان آتے ہیں۔

ان حالات کے تحت ان کا جسم بھی ڈھل چکا ہوتا ہے۔ ان کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے ماحول میں بمشکل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے لیے چھپنا آسان ہوتا ہے۔

پھر بھی جن علاقوں میں وہ رہتے ہیں۔ وہاں قدرتی وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ ان وسائل، یعنی کھانے پینے کی چیزوں کے لیے اکثر سنو لیپرڈ اور انسان آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا میں صرف چار سے ساڑھے چھ ہزار برفانی تیندوئے ہی بچے ہیں۔

برفانی تیندوئے اکثر پہاڑی بھیڑوں بکریوں کا شکار کرتے ہیں اور ان جانوروں کا شکار انسان بھی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے برفانی تیندوئے کے لیے شکار کی کمی ہو جاتی ہے۔

یہ لوگ تیندوئے کی کھال بیچ رہے ہیں سنو لیپرڈ ایک دوسرے سے گفتگو اپنے پیشاب کی بدبو اور نشان کی سے کرتے ہیں۔ اپنے علاقے میں وہ جگہ جگہ پیشاب کر کے یہ نشان لگاتے ہیں اور یوں اپنے اپنے علاقوں کی سرحدیں طے کرتے ہیں۔

اگر کوئی تیندوا اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتا ہے تو یہ پیشابی نشان بہت کام آتا ہے۔ انہی کے ذریعہ مرد چیتے اپنی مادہ ساتھی کو تلاش کرتے ہیں۔

لداخ کی پہاڑیا برف پوش ہوتی ہیں یا پھر پتھریلی

مارچ کا مہینہ، ان چیتوں کو میٹنگ سیزن ہوتا ہے اور اس دوران یہ اکثر آواز نکال کر اپنے ساتھیوں کو بلاتے ہیں۔

اکثر، ایک مادہ کے لیے دو نروں میں لڑائي دیکھی گئی ہے۔ برفانی تیندؤں کی محبت کی اس تکون یا ’لو ٹرائنگل‘ والی لڑائی میں کئی بار بچے مارے جاتے ہیں۔

اسی دوران کئی بار ماں، اپنے بچے کو شکار کی تربیت دیتے ہوئے کیمرے میں قید ہوئی۔ ہمیں بچہ بھی ماں کی تربیت کی مشق کرتا نظر آيا۔