برکی پٹھان
جب محمود غزنوی نے سومنات پر 17 حملے کیے اور وہ سومنات کو فتح نہ کر سکا تو کسی نے محمود غزنوی سے کہا کہ یمن میں ایک قوم آباد ہے جس کو بریکی کہا جاتا ہے وہ بہت بہادر اور جنگجو قوم ہے، ان کو بلاؤ۔
چنانچہ محمود غزنوی نے اس قوم کو بلا کر سومنات پر حملہ کیا اور سومنات کو فتح کیا۔ جب یہ لشکر مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا وزیرستان سے ہو کر افغانستان جا رہا تھا تو بریکی قوم کے کچھ لوگ وزیرستان کے علاقے کانی گرم میں رک گئے اور یہی آباد ہو گئے۔
برکی قوم کے بارے میں بابر نامہ میں لکھا ہے کہ برکی ایک پختون قبیلہ ہے جس کا مسکن برخ جو بعد میں بگڑ کر برک بن گیا۔
یہ قبیلہ، برک، افغانستان، جنوبی وزیرستان اور پشاور میں پایاں اور بالا اور جلندھر کے علاقے بابا خیل (جہاں لیفٹیننٹ جنرل واجد علی خان برکی پیدا ہوئے جو جنرل ایوب کے دست راست تھے اور ڈاکٹر نوشیروان برکی جہنوں نے شوکت خانم کو اصل شکل دی کے والد تھے) میں آباد ہے۔
برکی قوم کی اپنی ایک مشکل اور پیچیدہ زبان ہے جس کو ارمڑی زبان کہا جاتا ہے۔ یہ زبان سوائے برکی قوم کے دیگر لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ وزیرستان کے باقی لوگ اس زبان کو ’جنوں‘ کی زبان کہتے ہیں کیونکہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس زبان کے بارے میں ایک پرانا قول ہے کہ جب برطانیہ کی حکومت تھی تو انگریز آفیسر نے اس زبان کے متعلق کہا تھا کہ ’ہر زبان سیکھی جا سکتی ہے مگر ارمڑی زبان ایسی ہے کہ جیسے ٹین میں پتھر ڈال کر اس کو بجایا جاتا ہے‘۔ مطلب اس زبان کو سیکھنا نا ممکن ہے اور ہر زبان کی گرائمر ہے جبکہ ارمڑی زبان کی گرائمر نہیں۔
یہ انگریزوں کے دور کی بات ہے لیکن اب اس زبان کی گرائمر موجود ہے۔
ارمڑی زبان بھی ملٹری آپریشن سے کافی متاثر ہوئی اور برکی قوم ملٹری آپریشن سے ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، ٹانک، کراچی، اسلام آباد میں رہائش پزیر ہوئے اور یہاں پر ارمڑی زبان کے ساتھ ساتھ پشتو اور اردو مکس ہو گئی اور رفتہ رفتہ یہ زبان محدود ہو گئی۔
وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ارمڑی زبان پر توجہ نہ دی تو شاید یہ زبان ختم ہو جائے۔ اس زبان کے لیے برکی قوم حکومت سے اکیڈمی بنانے اور ساتھ ساتھ ملٹری آپریشن کے بعد یہاں آبادکاری کے لیے بھی اپیل کرتے رہے ہیں۔
برکی قوم کے افراد تعلیمی لحاظ سے بہت آگے ہیں اور سول، فوجی، سرکاری اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر تعینات ہیں۔
اس قوم کے درمیان اتفاق کا اندازہ ان کے گھروں کو دور سے دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے گھر اس طرح سے ساتھ ساتھ بنائے جاتے ہیں جیسے تمام گھر ایک دوسرے میں گھسے ہوئے ہیں۔