برک لین (ناول)
مونیکا علی کا مشہور ناول۔ جو 2003 کے بکر پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
کہانی
ترمیم’برک لین‘ نازنین نامی ایک کردار کی کہانی ہے جو شادی کے بعد بنگلہ دیش کے ایک گاؤں سے لندن کے مشرقی علاقہ بِرک لین میں رہنے آتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جس میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے اور جہاں غربت اور دیگر مسائل عام ہیں۔
نازنین خاموشی سے گھر کے کام اور خاوند کی خدمت میں لگی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کو اس اجنبی ماحول کی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔
نازنین کے میاں کو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھی نوکری نہیں ملتی۔ نازنین خود ایک کپڑے بنانے والی فیکٹری کے لیے سلائی کا کام گھر سے کرنے لگتی ہے اور اسی طرح اس کی کریم سے ملاقات ہوتی جو اس کے پاس سلائی کا کام لے کر آتا ہے۔
کریم کے ذریعے نازنین کو برطانیہ میں مسلمان نوجوانوں کے مسائل اور ان نوجوانوں کو اسلام کے نام پر آپنے آپ کو منظم کرنے کے جذبے کا معلوم ہوتا ہے۔
برطانوی معاشرے میں بنگلہ دیشی نژآد خاندانوں کے مسائل اور پریشانیوں کو اس کہانی میں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ لندن آنے والے ان تارکین وطن کی سب سے بڑی خواہش وطن واپسی کی ہے۔ لندن میں بیٹھ کر وہ وطن واپس جانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
ایک مغربی اور غیر اسلامی معاشرے میں بچوں کی پرورش بھی ان تمام افراد کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ دکھایا گیا ہے۔ کتاب میں والدین بچوں کی غیر مہذب حرکتوں سے پریشان ہوتے اور بچے یا تو والدین سے تنگ ہوتے ہیں یا پھر اپنی شناخت کے لیے ’مسلمان تنظیمیں ‘ قائم کر لیتی ہیں۔
نازنین کی کہانی کے ساتھ اس کی بہن حسینہ کی کہانی بھی اس کے بنگلہ دیش سے بھیجے ہوئے خطوط کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ حسینہ دونوں بہنوں میں زیادہ خوبصورت تھی اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ ظالم میاں سے نجات حاصل کر کے وہ گھر سے بھاگ جاتی ہے اور ڈھاکہ میں اسے دیگر مشکلات اور مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’برک لین‘ برطانوی معاشرے میں تارکین وطن کی داستانوں کی ایک اور مثال ہے۔