بنی ٹھنی
بنی ٹھنی سترھویں صدی کے والی کشن گڑھ راجپوت بادشاہ ساونت سنگھ (1748ء–1764ء) کی محبوبہ، مغنیہ اور شاعرہ گذری ہے جس کی تصویر نہال چند نے بنائی تھی اور اس تصویر نے اسے زندہ جاوید بنا دیا۔ اسے ہندوستان (راجستھان) کی مونالیزا بھی کہا جاتا ہے۔ بنی ٹھنی دراصل راجستھانی لفظ ہے جس کے معنیٰ آراستہ کے ہیں۔
بنی ٹھنی سرسوری گاؤں کی ویر گجر ذات سے تھی اور رسیک بہاری کے نام سے شاعری کرتی تھی۔ انھیں بعد میں اتسو، پریا اور ناگر رمنی کے ناموں سے بھی یاد کیا گیا۔ بعض لوگ اسے کشن گڑھ کی رادھا بھی کہتے ہیں۔ ماہر ثقافتیات ادبی نقاد اور شاعر احمد سہیل نے نے اپنے مضمون میں لکھا ہے" راجستھان میں مصوری کی روایت صدیوں قدیم ہے۔ خاص کر کشن گڑھ میں "مینچرز" تصاویر کے خدوخال، ساخت، رنگ اور بیانیہ اساطیری نوعیت کا ہے۔ کشن گڑہ کی مصوری میں ایک افسانوی یا فرضی کردار " بنی ٹھنی" کو ہمیشہ کلیدی حاصل رھی ہے۔ کشن گڑھ کے ساتویں (7) حکمران ساونت سنگھ (1699۔1764) جو مصور اور شاعر ھونے کے علاوہ فن نواز حکمران بھی تھے۔ ان کی سوتیلی ماں بینکاوتی جی نے دہلی کی ایک گائیکہ بنی ٹھنی کو اپنے دربار میں داخل کیا۔ بنی ٹھنی مغنیہ تو تھی ساتھ ہی ہندی کی شاعرہ اور اس کا حسن لاجواب تھا۔ کشن گڑھ کی مصوری میں اس کی نوک دار ناک، کمان دار ٹھوڑی اور صراحی دار گردن اور خوب صورت جسم نے کئی مصوروں کو مبالغے کی حد تک متاثر کیا اور بنی ٹھنی کو ہندوستان کی "مونا لیزا" بھی کہا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کی بنی ٹھنی کو راجھستاں اور فلورنس (اٹلی) کی فنکارانہ(مصورانہ)دنیاوں کو ایک دوسرے میں ضم کردی گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بنی ٹھنی کی صورت میں مونا لیزا کی تشریح نو بھی ھو ئی۔ جب بنی ٹھنی کشن گڑھ کے دربار میں بحثیت گلوکارہ شامل ھوئی تو ساونت سنگھ اس کے عشق میں گرفتار ھو گے تھے۔ وہ ویشنو تعلیمات کے زیر اثر رہے۔ ساونت سنگ، ناگری داس کے نام سے شاعری کیا کرتے تھے۔ وہ انتہا درجے کے عاشق مزاج تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کی "بنی ٹھنی" ساونت سنگھ کی "رکھیل "تھی۔ جس میں حسن، تہذیبی شائستگی، معاشرتی رکھ رکھاؤ بہت تھا۔ اسی سبب بنی ٹھنی کشن گڑھ کی تہزیبی، جمالیاتی قدر اور اساطیری کردار بن گئی۔ کشن گڑھ کی مصوری اور بنی ٹھنی پر پروفیسر ایرک ڈکنس ،کارل کنڈیلا اور ڈاکٹر فیاض علی خان نے اعلی درجے کا محققانہ اور تنقیدی کام کیا ہے جیسے للیت کلا اکادمی ، دہلی نے شائع بھی کیا ہے۔اور کشن کے مصور شہزاد علی خان نے اس حوالے شاندار تصاویربناکرمصوری کے اس مکتب فکر کو زندہ رکھا ھوا ہے۔ "{1} ۔۔۔۔۔ احمد سہیل نے لکھا ہے" کشن گڑھ کی مصوری نے بنی ٹھنی کو مبالغے کی حد تک خوب صورت بنادیا۔ ایک نوکیلی ناک، لمبے گھنے بال،صراحی دار گردن، مچھلی جیسی آنکھیں ،یا چشم آہو اور کمان کی سیتھوڑی کو جسمانی اعضا کی شکل دے کر اس میں رنگ بھرے گئے۔ بنی تھنی کی زیادہ تر تصاویر میں اس کے چہرے کے ایک ہی رخ کو پیش کیا گیا ہے اور اس کو فنکارانی آدرش { آئیڈیل} کے طور پر ایک " دیوی" کی صورت میں بھیاپنے فنکارانہ عمل میں شامل کیا۔ حا لانکہ کسی عورت کی ایسی آنکھیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ جو کانگڑا مصوری کی تکنیک ہے۔ جو انسان کی خوبصورتی کا التباس اورمصورانہ ہنر بھی ہے ۔{2}
1۔احمد سہیل ، "کشن گڑھ : راجستھان کا دبستان مصوری اور بنی ٹھنی " کتابی سلسلہ ' استفسار' جے پور ، راجستھان، بھارت ، شمارہ5 ۔ مارچ 2015۔
ترمیم2۔ احمد سہیل ۔ "کشن گڑھ : راجستھان کا دبستان مصوری اور بنی ٹھنی بشمول کتاب " تنقیدی مخاطبہ "، کتاب دار ، ممبئی،بھارت 2017 ۔