بوسنیا کی جنگ کے دوران خواتین کی عصمت دری

بوسنیائی جنگ کے دوران عصمت دری کے ذریعے مخصوص سماجی طبقات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جہاں مختلف نسلی گروہوں کے مردوں نے خواتین کی عصمت دری کی، بوسنیائی سرب فورسز (جمہوریہ سرپسکا فوج) اور سربیائی فوج نے بھی دہشت گردی کی ایک شکل کے طور پر اور مخصوص ایجنڈے کے طور پر  اجتماعی عصمت دری کی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ کے دوران 12,000 سے 50,000 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔[1][2][3][4][5]

سابق یوگوسلاویہ کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل (ICTY) نے اعلان کیا کہ جنگ کے وقت میں "منظم عصمت دری" اور "جنسی غلامی" انسانیت کے خلاف جرم ہے، نسل کشی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اگرچہ سابق یوگوسلاویہ کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل نے اجتماعی عصمت دری کو نسل کشی کے طور پر نہیں مانا، لیکن ان میں سے بہت سے لوگوں تک بوسنیائیوں (بوسنیائی مسلمانوں) کی منظم اجتماعی عصمت دری کے ذریعے رسائی حاصل کی گئی اور یہ عصمتیں نسل کشی کی ایک بڑی مہم کا حصہ تھیں ۔ سرب فوج بوسنیائی مسلم کمیونٹیز کے خلاف نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔

Dragolub Konarak (بوسنیائی سرب آرمی کا رکن) کا مقدمہ کسی بھی قومی یا بین الاقوامی فقہ میں پہلی بار تھا کہ کسی شخص کو جنگ کے دوران عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہو۔ بوسنیائی خواتین اور بچوں کے خلاف سربیا کے نیم فوجی اور فوجی دستوں کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کی وسیع پیمانے پر میڈیا کوریج نے بین الاقوامی رد عمل اور سربیائی افواج کی مذمت کو ہوا دی . جنگ کے بعد عصمت دری اور ان کے بعد ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت سی دستاویزی فلمیں بنائی گئیں اور ان میں سے کچھ فلموں نے کئی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

پس منظر

ترمیم

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، جنگ کے اوقات میں عصمت دری کا استعمال تنازعات کی ضمنی پیداوار نہیں ہے، بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ اور فوجی حکمت عملی ہے۔ اس اجتماعی عصمت دری کا بنیادی مقصد شہری آبادی میں دہشت کا بیج بونا ہے، انھیں ان کی املاک سے زبردستی بے دخل کرنے کے ارادے سے۔ دوسرا مقصد ہدف آبادی کو نقصان اور رسوائی پہنچا کر ان کی واپسی اور اپنے گھروں کی تعمیر نو کے امکانات کو کم کرنا ہے۔ یہ اثرات غیر ریاستی عناصر کے لیے حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہیں، کیونکہ ان کے لیے زمین سے ہدف کی آبادی کو ہٹانا ضروری ہے۔ اجتماعی عصمت دری کا استعمال نسلی صفائی اور نسل کشی پر مشتمل مہموں کے لیے موزوں ہے، جہاں کا مقصد آبادی کو تباہ کرنا، انھیں زبردستی اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ واپس نہ جائیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Sue Turto (21 July 2017)۔ "Bosnian War rape survivors speak of their suffering 25 years on"۔ The Independent (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2020 
  2. Denic Džidić، Denis Dzidic (29 September 2015)۔ "'20,000 Women Sexually Assaulted' During Bosnian War"۔ Balkan Insight (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2020 
  3. "'Invisible' Bosnians born of wartime rape use art to find their voice"۔ Reuters (بزبان انگریزی)۔ 15 October 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2020 
  4. Mersiha Gadzo (29 December 2017)۔ "Court fees and fear: Bosnia war rape victims struggle"۔ www.aljazeera.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2020 
  5. "In Bosnia and Herzegovina, stigmatization persists for victims of wartime sexual violence"۔ TRIAL International (بزبان انگریزی)۔ 17 April 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2020