بھوپال میڈیکل اپیل
بھوپال میڈیکل اپیل
تعارف
ترمیمبھوپال میڈیکل اپیل،1984 میں ہونے والے سانحۂ بھوپال(دنیا کا سب سے بڑا صنعتی حادثہ) سے بچ جانے والے لوگوں کی مفت طبی مدد کے لیے فنڈز جمع کرتی ہے اور دو طبی مراکز بھی چلاتی ہے۔یہ ایک برطانوی این جی او ہے۔
مدد کے طریقے
ترمیمیہ این جی او کئی طرح سے سانحۂ بھوپال سے متاثر لوگون کی مدد کرتی ہے۔
1۔ اُن ہزاروں لوگوں کو طبی امداد مہیا کرتی ہے جو اب بھی کیمیائی مرکبات ملا پانی پینے پہ مجبور ہیں جو سانحہ کے بعد ابھی تک صاف نہیں کیا جا سکا۔ 2۔ وہ لوگ جو مہلک گیس سے شدید متاثر ہوئے اور ابھی تک حیات ہیں۔ ان لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ 3۔ یہ این جی او چِنگری ٹرسٹ کی مددگار بھی ہے جو زہریلی گیس اور آلودہ پانی سے متاثرہ 250 بچوں کوروزانہ کی بنیادوں پہ تھیراپیز اور تعلیم کی سہولت دیتی ہے۔
طبی مراکز
ترمیمبھوپال میڈیکل اپیل نے ان 32000 متاثرہ لوگوں کی تکالیف کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کر رہی ہے کہ جن کی کسی اور طرف سے یا تو بالکل بھی مدد نہیں کی گئی یا پھر بہت کم مدد کی گئی۔یہ این جی او ان لوگوں کی بہت سی بیماریوں کا موثر علاج اور مقامی لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔اس مقصد کے لیے انھوں نے دو طبی مراکز قائم کیے ہیں جہاں صحت کے معاملات سے متعلق تعلیمی پراگرامز بھی ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ضروری ٹیسٹ، علاج اور دیگر طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
سانحۂ بھوپال
ترمیمدو اور تین دسمبر انیس سو چوراسی کی درمیانی رات تھی کہ اچانک کھاد بنانے والی اس فیکٹری سے زہریلی گیس رسنا شروع ہو گئی۔ رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے، کڑا کے کی سردی تھی اور لوگ اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ انتہائی زیریلی (میتھائل اسوسائنیٹ) گیس چاروں طرف پھیل گئی۔ بڑی تعداد میں لوگ نیند سے اٹھے ہی نہیں، جو اٹھ سکے ان کے پاس بھاگ کر جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ سب سے زیادہ متاثر فیکٹری کے گرد و نواح میں کچی بسیتوں میں رہنے والے لوگ ہوئے لیکن بھوپال شہر بھی محفوظ نہیں رہا۔ بڑی تعداد میں لوگ، جس حال میں بھی تھے، جان بچانے کے لیے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یونین کار بائیڈ کے بھوپال کار خانے میں کیمیاوی کھاد بنائی جاتی تھی۔اس کار خانے میں جدید حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ جس زہریلی گیس میتھائل آیسوسائنائٹ (Mic) کے ٹینک سے رسائو ہوا تھا اس میں مقررہ ضابطوں کی پاسداری کامکمل فقدان تھا۔ یونین کاربائیڈ کے دوسرے کاخارنوں میں یہ زہریلی گیس کسی ایک بڑے ٹینک میں رکھنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے سلنڈروں میں رکھی جاتی ہے تاکہ ان کے حفاظتی اقدامات میں دقت نہ ہو۔ بھوپال میں محض لاگت کم کرنے اور کمپنی کا منافع بڑھانے کے لیے اس روایت کی خلاف ورزی کی گئی۔ دوسرے غیر ملکی کارخانوں میں اس گیس کی کم زہریلی قسم استعمال کی جاتی ہے لیکن اس پر خرچ زیادہ آتا ہے۔ ایم آئی سی گیس کے سلنڈر وں کو مستقلاً ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔ بھوپال میں اس کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس گیس میں اگر پانی ملادیا جائے تو خطرناک کیمیاوی رد عمل (Reaction) ہوتاہے۔ بھوپال کے پلانٹ میں اس سلسلے میں جو احتیاطی اقدامات لازمی ہیں وہ نہیں کیے گئے تھے۔ گیس کا رسائو صرف اسی لیے ہوا کہ ایئر کنڈیشننگ کا نظام بند تھا یا ناقص تھا اور گیس کے ٹینک میں پانی چلا گیا تھا جس کی وجہ سے گیس گرم ہو کر ٹینک کے ناقص سیفٹی والو کو توڑ کر باہر آگئی اور ہوا میں شامل ہو کر اُسے نہ صرف انسانوں کے لیے سانس لینے لائق نہیں رہنے دیا بلکہ 'باد سموم' (زہریلی ہوا) بن کر ان کی فوری اور تکلیف دہ موت کاسبب بن گئی۔ لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا لیکن گیس کی زد میں آنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ زندہ بچ جانے والوں کو فوری طبی امداد فراہم نہیں کی جاسکی۔ اور وہ آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ بہت سی متاثرہ عورتوں کے بچے آج بھی جسمانی اور ذہنی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور اس فیکٹری کی وجہ سے آلودہ ہوجانے والا آس پاس کا زیر زمین پانی آج بھی ’سلو پائزن‘ (آہستہ آہستہ کام کرنے والے زہر) کا کام کرتا ہے۔
لیکن اس کے باجود متاثرین کی داد رسائی آج تک ممکن نہیں ہوئی ہے۔ یونین کاربائڈ ایک انہتائی بااثر کثیر قومی کمپنی ہے جس کے خلاف متاثرین نے اگرچہ لمبی قانونی جنگ لڑی لیکن معاوضے کے نام پر کچھ خاص ان کے حصے میں نہیں آیا۔
انیس سو نواسی میں سپریم کورٹ کے ثالثی کے بعد یونین کاربائڈ چار سو ستر ملین ڈالر بطور معاوضہ ادا کرنے پر تیار ہوئی لیکن اس رقم کا تعین کرتے وقت متاثرین کی تعداد ایک لاکھ اور مرنے والوں کی صرف تین ہزار مانی گئی تھی۔
حوالہ جات
ترمیم1۔ https://www.bbc.co.uk/programmes/b07pd79gاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
2۔ https://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookID=13072&BookPageID=303015&BookTitle=Ghulami%20Ka%20Almia-chapter303015اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
3۔ https://www.bbc.com/urdu/india/2010/06/100606_bhopal_gas_what_happenedاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
4۔ https://www.dw.com/ur/%D8%B3%D8%A7%D9%86%D8%AD%DB%81-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%BE%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%D8%A8%D8%B1%D8%B3-%D9%85%DA%A9%D9%85%D9%84-%D9%BE%DA%BE%D8%B1-%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%D8%B2%D8%AE%D9%85-%D9%85%D9%86%D8%AF%D9%85%D9%84-%D9%86%DB%81-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92/a-18104999اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
5۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Bhopal_disasterاخذ شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
6۔ https://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookID=13072&BookPageID=303015&BookTitle=Ghulami%20Ka%20Almia-chapter303015اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
7۔ https://www.youtube.com/user/BhopalMedicalAppeal?reload=9اخذ شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
8۔ https://www.justgiving.com/bhopalاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
9۔ https://twitter.com/BhopalMedAppeal?ref_src=twsrc%5Egoogle%7Ctwcamp%5Eserp%7Ctwgr%5Eauthorاخذ شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018
10۔ https://www.bhopal.org/اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 30 ن1مبر 2018