بھگت کبیر فلسفہ و شاعری
'بھگت کبیر فلسفہ و شاعری' کتاب کی تالیف ہری اودھ نے کی اور اس کا اردو ترجمہ سرسوتی سرن کیف نے کیا ہے۔ کتاب کے ناشر فکشن ہاؤس لاہور ، ترتیب و تدوین فکشن کمپوزنگ اینڈ گرافکس نے کی ، سر ورق عباس نے بنایا ہے۔
کبیر کے فلسفے کا پس منظر
ترمیمکتاب کے آغاز میں سرسوتی سرن کیف نے کبیر کے فلسفے کا پس منظر بیان کیا ہے جس میں بھگت کبیر کی پیدائش، ہندو مذہب اور اسلام سے شناسائی اور اثرات کا مختصر جائزہ لیا ہے۔
ناتھ یا سِدٌھ فلسفہ
ترمیمناتھ یا سدھ فلسفے کے مطابق وجود اعلی کو شیو کا نام دیا گیا جس کی نہ صفت نہ حرکت، ویدانتوں کے پرم برہم کی طرح شعور محض ہے۔ جس کے اندر ہی ان کی تخلیقی قوت مضمر ہے جو شکتی کہلاتی ہے۔ شکتی اور پرم برہم بنیادی طور پر ایک ہیں مگر شکتی کے زور مارنے پر شیو اپنی لطافت کو بتدریج کم کرتے ہوئے پہلے اپر پھر پرم پھر شونیہ پھر نرنجن پھر پرماتما کا درجہ لیتے ہیں۔ ان حالات میں شیو کی شکتی بھی علی الترتیب نجا ، پرا ، اپرا ، سوکشما اور کنڈلی کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کے بعد بیس پچیس منزلوں میں لطافت محض جو شیو ہیں کثیف سے کثیف تر ہوکر جامد دنیا کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں یعنی یہاں تخلیق سے مراد کس چیز سے کسی نئی چیز کا بنانا نہیں بلکہ خود کو مخلوق کی صورت میں ڈھالنا ہے اور یہ وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔ ویدانت میں یہی ادبیت سبحان تھے اس میں کچھ اختلافی نظریات بھی ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں ویدانتی اور سندھ موجود ہیں یعنی شیپ اور شکتی کو مانتے ہیں باہر کثیف ترین صورت اختیار کر لینے کے بعد پھر لطافت کی طرف بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی ابتدائی منزلیں قوت اور قوت حیات ہیں جو نباتات اور حیوانات میں دکھائی دیتی ہیں اور اگر وہ سخت پرانی راستے پر پڑتا ہے اپنے اصلی شیروں کو دوبارہ پالے گا سِدٌھ کے لیے کوشاں ہیں۔
ہزاری پرساد دویدی کا دیباچہ
ترمیمبنارس ہندو یونیورسٹی کے وارانسی ہزاری پرساد دویدی نے کبیر پر ایک عمدہ مضمون لکھ کر اس کتاب میں مفید معلوماتی اضافہ کیا ہے۔ قاری کو کبیر کے بارے میں عموماً اور ان کی فلسفہ اور شاعری کے بارے میں خصوصاً آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ہزاری پرساد کے بقول کبیر ہندوستان کے ان گنے چنے روحانی رہنماؤں میں شامل ہیں جنھوں نے ذاتی تجربے پر مبنی اپنے مقولات کے ذریعہ عوام کے سامنے مذہب و ملت کے قوانین کے پیچھے چھپی دائمی حقیقت کو دیکھا اور بیان کیا۔ ہزاری پرساد کبیر کی پیدائش سمبت 1455 وکرمی (1398) میں بتاتے ہیں اور انتقال کا سال 1478 لکھتے ہیں۔
کبیر کی تصنیفات
ترمیمکبیر کی تصنیفات کئی صورتوں میں ملتی ہیں وہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے ان کی تخلیقات عموماََ عابدوں کے سر وں میں ہی پھوٹی رہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان کی نظموں میں تھوڑی بہت تبدیلی بھی ہوئی ۔ ان کے نام پر شائع شدہ کتابوں کی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہے، لیکن وہ ساری مستند کتابیں نہیں ہیں۔ جب سے موجودہ طریقے کی تحقیق کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے اس کی اصلی تصانیف کی تلاش کی بہت کوشش کی گئی ہے۔ آنجہانی ڈاکٹر شیام سندرداس کو ایک مخطوطہ ملا تھا جس پر سمبت 1561 وکرمی دیا ہوا تھا۔