{{خانہ معلومات چڑیا گھر|zoo_name=چڑیا گھر بہاولپور|date_opened=1942 1955 میں  یہاں کے منتظم ڈاکٹر غلام حیدر سمرا کا محکمہ زراعت تبادلہ کر دیا گیا 1977 سے 1982 تک چڑیا گھر محکمہ لائیو سٹاک پنجاب کے زیر انتظام رہا ۔ یہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے بعد پاکستان کا چوتھا بڑا چڑیا گھر ہے۔[1]

نمائش ترمیم

یہ جانوروں کو رکھنے پرانے طرز کے پنجرے اور نئی طرز کے باڑے موجود ہیں۔ پرانے طرز کے پنجروں میں گھریلو بلیاں، گیدڑ، ہندوستانی جنگلی بلیاں موجود ہیں جبکہ مگر مچھوں کو جدید طرز کے باڑوں میں  رکھا گیا ہے۔اسی طرح شیر، چیتے اور لگڑ بگڑو ں کو بڑے پنجروں میں رکھا گیا ہے۔ ایک بڑے سے جوہڑ میں پیلکن، سارس، بطخیں اور دیگر آبے پرندے رکھے گئے ہیں۔کئی پرندے بھی نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ یہاں بلیک بک، ہاگ ڈئیر، نیل گائے، سرخی یورپی ہرن اور چنکارا ہرن بھی موجود ہیں۔

یہاں بہت سے بھس بھرے حنوط شدہ جانور بھی ایک عجائب گھر میں موجود ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں پنجاب کے آخری مارے جانے والے جنگلی شیر کی حنوط شدہ لاش بھی موجود ہے.

تنقید ترمیم

اس چڑیا گھر کی انتظامیہ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ یہاں موجود جانوروں کے بارے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے جس کی وجہ سے جانور انتہائی ناگفتہ حالت میں رہتے ہیں.[2][3]

تحفظ ترمیم

اس چڑیا گھر میں کئی معدومی کے خطرے کی شکار انواع کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے جن میں ایشائی ببر، ایشیائی سیاہ ریچھ، بنگالی شیر، سیاہ ہرن اور چتکبرا ہرن شامل ہیں۔ ہندوستانی ہرن (چنکارا)، چتال اور نیل گائے کی نسل کشی بھی کی گئی ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Bahawalpur Zoo | Forest, Wildlife & Fisheries Department"۔ 14 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  2. Animal rights: No water for animals at Bahawalpur Zoo | The Express Tribune
  3. Bahawalpur Zoo’s tale of neglect - Newspaper - DAWN.COM