بہشتی دروازہ جنت کا دروازہ جو پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر جو ان کے مرید، نظام الدین اولیاء نے ان کے اعزاز میں تعمیر کروایا۔
مزار کے دو دروازے ہیں؛ ایک مشرق کی جانب جو نوری دروازہ کہلاتا ہے اور دوسرا جنوب کی جانب جو بہشتی دروازہ یا جنت کے دروازے کے نام سے مشہور ہے۔
اس پر لکھا ہے : ”جو اس دروازے سے داخل ہوا اس نے امان پائی۔“

Jannati (Bahishti) Darwaza the door of paradise – panoramio

وجہ تسمیہ ترمیم

اسے بہشتی دروازہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بابا فرید گنج شکر کی وفات کے بعد ایک مرتبہ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا ان کے مزار پُرانوار پر حاضر ہوئے تو خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اس دروازے پر جلوہ فرما ہیں اور فرما رہے ہیں کہ نظام الدین جو شخص اس دروازے میں داخل ہوگا اسے امان ملے گی اس دن سے اس دروازے کا نام بہشتی دروازہ پڑ گیا۔ [1] یہ کہا جاتا ہے کہ منگول فاتح تیمور نے بابا فرید کے مزار کی تعظیم میں پاکپتن کے باشندوں کی جان بخشی۔[2]۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ۔ بابا فرید سے کسی نے پوچھاجنت کا دروازہ کون سا ہے؟ انھوں نے کہا، ہم جس سے گذر رہے ہیں، یعنی ہمارا عمل اور طریق زندگی۔ اتفاق سے اس وقت وہ اس دروازے سے گذر رہے تھے۔ سننے والے نے وہی دروازہ سمجھ لیا۔ جبکہ ان کی مراد ایمان و عمل کا دروازہ تھا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. خزینتہ الاصفیاء جلددوم، صفحہ136 مفتی غلام سرور لاہوری، مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور
  2. Baba Farid | Humshehri