بیلیاں گاؤں ضلع مانسہرہ تحصیل اوگی وادی اگرور میں واقع ہیں سواتی قوم کا ایک بہت ہی بہادر، اعلی کردار کے مالک، پڑھے لکھے اور غیرت مند قوم ہے جو قبیلے سواتی کے متراوی بیگال سے تعلق رکھتے ہیں اور سواتی گیلال بھی یہاں موجود ہے اور سواتی نام سے جانے جاتے ہیں ان کی تاریخ مانسہرہ میں 350 سال پر مبنی ہے

یہاں پر رہنے والے قبیلوں کے نام ١امیرخان خیل ٢حواجہ خیل ٣دریا خان خیل سے مراد غاذیکوٹی ٤الال خیل یا غاذی خیل ٥کاگوڑ ٦شمھوڑی ٧ملا خیل اور ان سات خیلوں کو تین ٹلوں میں تقسیم کیا ہے ١امیر خانخیل ٢حواجہ خیل ٣غاذیکوٹی اور ان تینوں خیلوں کے اپنے جھنڈے تھے امیر خان خیل کے جھنڈے کا رنگ کالا خواجہ خیل کے جھنڈے کا رنگ سرخ اور غاذیکوٹی کے جھنڈے کا رنگ سبذ تھا جب یہ تینوں قبیلے لشکر نکالتے تو اپنے جھنڈے ساتھ لے جاتے وادی اگرور میں سواتی پشتونوں کے آنے کا سلسہ تقریباً سولوی صدی کے أحر اور سترا صدی کے شروع میں ہوا لیکن سواتی بیگال اور سواتی علی شیری قبیلہ پشتونوں کے پرانے روایات کے مطابق علاقوں کا تبادلہ کرتے اس زمانے کے مطابق کچھ سال بیگال پکھلی میں رہتے اور کچھ سال علی شیری اگرور میں رہتے اس طرح ان دونوں قبیلوں میں لڑای ہوئی جس کے نتیجھے میں علی شیری قبیلے کے کافی جوان شھید ہوئے پھر سواتی قباٸل نے ملکر دونوں قبیلوں کے درمیان نمکی ویش یعنی تقسیم کیا اس طرح دونوں قباٸل کے درمیان ہمیشہ کے لیے صلح کرایا بیگال کے حصے میں اگرور اور علی شیری کے حصے میں اپر پکھلی ایا

[بیلیاں کی تاریخ]

بیلیاں کی تاریخ میں کافی ساری جنگیں شامل ہیں۔ جو نواب آف تنول کالا ڈھاکہ/تورغر کی پختون قوم اکازئی اور سکھوں کے ساتھ لڑی گئیں۔ (نواب کہ ساتھ تین جنگیں لڑی گئی ) ان جنگوں کی دو وجوہات تھیں ایک نوابوں کی انگریزوں کہ ساتھ وفاداری کا ثبوت اور دوسرا اپنی زمین واپس حاصل کرنا کیوں کہ یہ قبیلے جہاں آباد تھے یعنی سر زمین بیلیاں پر یہ نواب آف تنول کہ ساتھ لڑ کر حاصل کی گئی تھی نواب اپنی زمین واپس حاصل کرنے اور انگریزوں کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کے لیے بار بار کوشش کرتے لیکن ان کو ہمیشہ ہار کا سامنا کرنا پڑا نوابوں کے ساتھ جھنگوں میں ایک مشہور قصہ ہے کہ جب وہ تناول سے اپنے لشکر نکالتے اور اگرور کے قریب اتے تو کولکہ کے سواتی خانان اپنے جھنڈے ہوا میں لھراتے جس سے بیلیاں کے سواتی اپنے دفاع کے لیے تیار ہوتے اور تنولیوں کے ساتھ گاؤں بیلیاں کے کھیتوں ونڈ میں پانی چھوڑ کر جس میں نواب کے لشکر کے گھوڑے پھنس کر سواتیوں نے ایک ذوردار حملہ کیا اس میں نواب اف تناول کے کافی سارے سپاہی شھید ہوئے جس کے بعد نوابوں نے کبھی حملے کرنے کی جرأت نھی کی سواتی جو بیلیاں میں آباد ہیں ان کی سب سے بڑی طاقت انکا آپس میں اتحاد اور اتفاق رہا ہے جو آج بھی لوگوں کہ لیے ایک بہت بڑی مثال ہے نوابوں کہ ساتھ لڑائی کی وجہ سے بیلیاں کہ لوگوں نے دفاع کہ لیے اپنے گاؤں کو پہاڑ کہ دامن میں بسا لیا

(دوسری جنگ) دوسری جنگ کی بڑی وجہ سرسبز وادی اور زرخیز زمین تھی ۔ یہ جنگ بیلیاں کے سواتیوں اور تورغر کہ پشتون قبیلے اکازئی کہ درمیان لڑی گئی جو کافی عرصے تک چلتی رہی جو بہت سی شہادتوں کہ بعد بیلیاں کے سواتیوں کی جیت بن کر سامنے آئی اور اس کے بعد جرگہ ڈب میں دونوں علاقوں کہ لوگوں نے معاہدات کیے اور لڑائی کو خیر آباد کہہ دیا اکازئی کیساتھ لڑای کا ایک مشہور قصہ ہے اکازئی نے یبیلیاں پر کافی حملے کیے لیکین ہمیشہ کیطرح نا کام رہے احر کار ان لوگوں نے رات کے وقت بیلیاں گاؤں پر حملے کرنے کی کوشش کی لیکن گاؤں میں بزرگ شخصیت الله کا ولی حضرت سید باباجی بحتور موجود تھے جب اس کو حملے کا پتہ چلا تو باباجی نے اربوڑہ کیطرف اشارہ کیا اور اکازئی قبیلے نے اربوڑہ گاؤں کو جلا ڈالا (سکھوں کے ساتھ جھنگ) سواتیوں اور سکھوں کی گاؤں کولکہ کے مقام پر ایک ذوردار لڑاٸ ہوٸ جس میں سکھوں کی طرف سے توپوں کا استعمال ہوا اور سواتی قوم کے چار سو کے قریب سپاہی شھید ہوئے ایک بڑی جھنگ کے بعد سواتی قبیلہ سکھوں کے قلعے تک پہچ گٸ سکھوں کو جب پتہ چلا کہ سواتی قلعے کے اندر أ رہے ہیں تو انھوں نے قلعے میں بم رکھ کر قلعے کو تباہ کیا اور وہاں سے بھاگھ نکلے اور کچھ سپاہی سکھوں کے مارے گئے اسی طرح قلعہ کولکہ کو سواتی قبیلہ نے فتح کر کے جیت اپنے نام کر دیا (بیلیاں گاؤں کی کلچر,)

اگر بیلیاں کی بات کی جائے اور یہاں کے لوگوں کی                                     

کلچر کے بارے نہ بتائے تو یہاں کے لوگوں کے ساتھ نہ انصافی ہے کیو کہ یہاں کے لوگوں نے

سواتیوں نے اپنی بہترین پرانے کلچر،

رسم و رواج

 کو ابھی تک زندہ رکھا ہے اور اسی کیساتھ اپنی مادری زبان کو بھی زندہ رکھا ہے
(محتصر تاریخ سواتی)                                 

مؤریحین لکھتے ہے کہ سواتی اور دلاذاک قوم گیارویں صدی عیسوی میں محمود غذنوی کے ساتھ افغانستان سے جہاد کے لیے ائے تھے اور کچھ مؤریحین کا خیال ہے کہ شہاب الدین غوری کے ساتھ ائے اور چار سو سال تک سواتی قبیلے نے سوات پر حکمرانی کی لیکن بعد میں جب افغانستان میں مرذا الغ بیگ جو ایک ترک حکمران تھے یوسفزئی قبیلے کی سرکشی پر بے دے دخل کیا تو یہ قبیلہ پشاور کے راستے پختونحواہ میں داخل ہوئے سواتی روایات کے مطابق سواتی اور دلاذاک قبیلے نے ان کی مدد کی لیکن جب بعد میں یوسفزئی مضبوط ہوئے تو انھوں نے سواتی اور دلاذاک قبائل پر حملہ کیا۔ اور یوسفزئیوں نے سواتی اور دلاذاک کو ھزارہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔

اس وقت یوسفزئی کی فوج کی تعداد تقریبأ ایک لاکھ تھی جبکہ تاریخ ھزارہ میں شیر بہادر خان پنی لکھتے ہے کہ ھزارہ میں سواتیوں کے آمد کے دوران ان کی کل تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی اس وقت یوسفزئی کے سردار ملک احمد خان تھے اور سواتی قبیلے کے سردار سلطان ملک اویس سواتی تھے ملک احمد خان نے اپنی بہن کی شادی سلطان اویس سواتی سے کراٸ تھی بعض مؤرٸحین لکھتے ہے کہ یوسفزئیوں کی عزت پر بری نظر اور ہاتھ ڈالنے کی پاداش میں بہت بڑی خون ریز جنگ ہوئی جس کی وجہ سواتی اور دلاذاک کو علاقہ چھوڑنا پڑا اور ھزارہ کی طرف کوچ کرنی پڑی جہاں وہ سب بہترین زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ زمینوں کے مالکان بھی ہیں اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی ہیں                     
(راٸیٹر)                                                             شکیل احمد سواتی امیر خان خیل گاؤں بیلیاں

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم