بے داری (انگریزی: Arousal) ایک جسمانی اور نفسیاتی کیفیت ہے جس میں کوئی شخص نیند، غفلت، ناواقفیت یا کم علمی کی حالت سے جاگ اٹھتا ہے یا اس کی قوائے حاسہ اس درجے متحرک اور بہ روئے کار ہوتے ہیں کہ وہ سوچنے اور معاملات پر کچھ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے نیند سے بے داری تو سب سے عام صورت حال ہے، جس میں ایک شخص سونے بعد آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے دوبارہ جڑتا ہے اور چوکس بھی ہو جاتا ہے۔ دوسری کیفیت غفلت کی ہے۔ یہ غفلت، چاہے انفرادی ہو یا سماجی، چھوٹے معاملے کا یا کوئی بڑی بات کا، کم اہم پہلو کو نظر انداز کرنے کا اشارہ کرتا ہے۔ مثلًا کسی محلے میں لوگوں کا وہاں کے ہر کونے میں کچرا پھینکنا ان کی غفلت دکھاتا ہے، جب کہ اس کچرے کی نکاسی کا اگر حکومت کی جانب سے کوئی انتظام نہ ہو تو وہ انتظامیہ کی غفلت دکھاتا ہے۔ اس میں بے داری لوگوں میں صفائی پسندی لا سکتی ہے اور حکومتوں میں فعالیت پیدا کر سکتی ہے۔ ناواقفیت گویا کسی شخص سے ناسمجھی یا بنا جانے بوجھے کسی کام کے کرنے کے خراب نتیجے دکھا سکتا ہے۔ مثلًا بچوں کا سڑک قواعد کو توڑ کر تیز آمد گاڑیوں کے سامنے بھاگنا ناواقفیت ہی میں صحیح، کسی مہلک حادثے کو دعوت دے سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو سڑک اور وہاں سے گزرنے میں احتیاطی پہلوؤں سے واقف کرتے ہوئے بے دار کیا جائے۔ ایک اور کیفیت کم علمی ہے۔ اس سے سماج میں کئی غیر ضروری رسم و رواج دیکھنے میں آتے ہیں جو مذہبی اور سائنسی نقطہ نظر سے غلط ہوں۔ مثلًا، لوگ شدید بیمار مریض کو کسی نیم حکیم کے آگے علاج کے لیے لے جاتے ہیں، جو خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسے میں لوگوں میں اس بات کی بے داری کی ضرورت ہے کہ ایک سند یافتہ ڈاکٹر یا حکیم سے ہی علاج کروایا جائے، خاص طور پر جب کوئی معاملہ سنگین یا جان لیوا بھی ہو سکتا ہو۔

بے داری کی کیفیت کئی پیچیدہ معاملوں میں بھی ضروری ہو سکتی ہے۔ مثلًا اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدالتوں سے بَری ہونے کے بعد بھی کئی سماجی حلقوں میں اُن افراد کو پہلے کی طرح قبول نہیں کرتا، جن پر کہ قانون نافذ کرنے والی کسی ایجنسی یا کسی مفاد حاصلہ کی وجہ سے کسی بڑے جرم کا الزام لگایا گیا تھا، جو بعد میں بالکلیہ بے سروپا ثابت ہوا۔ حالانکہ ماہرین نفسیات کے مطابق ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کی وجہ سے وہ پہلے سے کہیں زیادہ عزت کا حق دار ہوتا ہے، اس پرغور کرنے کی ضر ورت ہے اور عوام میں اس موضوع پر بے داری کی ضرورت ہے۔[1] اسی طرح سے کچھ دیہی علاقوں میں بیوہ خواتین کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں شادی بیاہ کی رسموں سے دور رکھا جاتا ہے، جب کہ کوئی عورت شاید ہی بہ رضائے خود بیوہ بننا چاہے اور جس چیز کا اختیار خدا کا ہے، اس میں کسی بندے یا بندی کو خاطی یا برا سمجھنا ناقابل فہم ہے۔ کئی مصلحین نے اس بارے میں بے داری لانے کی کوشش کی اور نہ صرف بیواؤں کو قبول کرنے پر زور دیا، بلکہ حتی الامکان ان پریشان خواتین کی دوبارہ خانہ آبادی کی کوشش کی۔


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم