گو آج ہرکوئی جانتا ہے کہ ڈی این اے ایک ایسا سالمہ ہے جو وراثتی خواص والدین سے اولاد میں منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن ماضی میں علما (سائنسدانوں) میں اکثر کے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ ایسا بھی ممکن ہو کہ کوئی سالمہ، انسانی خواص کو ایک سے دوسری ہی نہیں بلکہ نسل در نسل محفوظ اور منتقل کر سکتا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ مختلف علما کے (مثلا 1856 میں شروع ہوکر 1865 میں بیان کیے جانے والے Mendel) کے تجربات سے وراثتی اکائیوں کا تصور بننے لگا۔

1869 میں Friedrich Miescher نے ڈی این اے دریافت کیا جب اس نے خون کے سفید خلیات کے مرکزوں میں سے ایک ایسا مادہ دریافت کیا جس میں اس کی تحقیق کے مطابق نائٹروجن کی کثیر مقدار پائی گئی، لیکن اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ مادہ جو اس نے الگ کیا ہے یہی DNA کہلایا جائے گا۔ چونکہ یہ مادہ مرکزوں سے حاصل کیا گیا تھا اور مرکزے کو nucleus کہا جاتا ہے لہذا اسنے اس کو نیوکلین (nuclein) کا نام دیا۔ Miescher نے یہی مادہ قیح (پیپ یا pus) اور حوت سلیمان یا ماھی آزاد (salmon fish) سے بھی حاصل کیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مادہ باراوری (فرٹیلائزیشن) اور وراثتی خواص کی منتقلی میں ملوث ہو سکتا ہے۔

1895 میں Edmund نے لونی جسیمات (chromosomes) ماں اور باپ کی جانب سے یکساں منتقل ہونے کی بنیادوں پر ان کی وراثت میں اہمیت کا خیال ظاہر کیا۔ اس سے پہلے Walter Flemming اس مادے یعنی nuclein کی کروموسومز سے قربت محسوس کرچکا تھا اور اسی نے سب سے پہلے یہ لفظ chromatin استعمال کیا تھا۔

پھر سَعتر (گردن کے نچلے حصے پر موجود ایک غدود جس کو انگریزی میں Thymus کہتے ہیں) اور خمیر کے خلیات پر تجربات کرکے Albrecht Kossel نے یہ دریافت کیا کہ یہ نیوکلین دراصل ایک نہیں بلکہ دو اقسام کے ترشے (تیزاب) ہیں، ایک آراین اے اور دوسرا ڈی این اے۔