حرم مکہ، روضہ رسولﷺ، حجرہ مبارکہ اور اغوات۔ ترمیم

کل جب یہ خبر پتہ چلی کہ روضہ رسول اور خادم حجرہ مبارکہ آغا احمد علی یاسین انتقال کر گئے ہیں۔ اور خادم حجرہ مبارکہ آغا احمد علی یاسین کی نماز جنازہ کل پیر کو مسجد نبوی شریف میں ادا کی گئی اور انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔ روضہ اطہر اور حجرہ مبارکہ کے خادم آغا احمد علی یاسین کی وفات کے بعد اب مدینہ منورہ میں صرف تین آغا حیات ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں حرمین اور روضہ رسول میں آغا کون لوگ ہوتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی مسجد نبوی شریف کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ آغااحمد یاسین کے انتقال کے بعد اب مدینہ منورہ میں صرف تین آغا حیات ہیں۔ جن لوگوں نے پچھلی دہائیوں میں نماز یا طواف کیلئے مسجد الحرام میں وقت گزارا ہوگا، انہیں وہاں وہ لوگ یاد ضرور ہونگے جو ماضی قریب تک مطاف یا کنکریوں کے صحن میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض امام کے ہمراہ آتے جاتے ، سفید ثوب پہنتے، سفید عمامہ زیب تن کرتے ۔ بعض منفرد قسم کا سبز عمامہ استعمال کیا کرتے تھے۔ رنگین شال اور کمر پر بیلٹ باندھے ہوئے مستعد شکل میں بیٹھے نظر آتے تھے۔ جونہی انہیں خدمت کے لیے طلب کیا جاتا فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ انہیں ”اغوات الحرم“ کہا جاتا تھا۔ بالکل اسی طرح مسجد نبوی میں بھی ان کے لیے ایک مخصوص جگہ ہے جسے ’دکۃ الاغوات‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ مسجد نبوی شریف کے ایک گوشے میں ہے۔ گزشتہ برسوں کی یہ تاریخ شائد کچھ لوگوں کے ذہن کی اسکرین پر دوڑنے لگے۔ جبکہ آج ہمارے بہت سارے نوجوان اغوات الحرم کی تاریخ سے یکسر ناواقف ہونگے۔ اغوات کون ہیں؟ اغوات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دینے والے باکمال، خوش خصال اور منکسر الحال لوگ ہیں۔ ان کی اپنی ایک تاریخ ، تہذیب اور قاعدے قانون ہیں۔ مسجد نبوی شریف میں اغوات کی تاریخ ملک الناصر صلاح الدین بن ایوب کے عہد سے شروع ہوتی ہے۔ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے مسجد نبوی شریف کی خدمت کے لیے اغوات تعینات کیے تھے۔ ہر دور میں اغوات کا لباس منفرد رہا ہے۔ معروف سیاح ابن بطوطہ نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے’ اغوات خوش اطوار ہوتے ہیں۔ ان کے ملبوسات دلچسپ انداز کے ہوتے ہیں۔ اغوات کے سردار کو شیخ الحرم کہا جاتا ہے‘۔ اغوات لفظ جمع ہے، اس کا واحد آغا ہے۔ ”آغا“ کا لفظ عربی نہیں عجمی ہے۔ یہ ترکی، کردی اور فارسی زبانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کرد حضرات اپنے بزرگوں اور شیوخ کیلئے آغا کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ ترک حضرات سربراہ اور آقا کیلئے لفظ آغا بولتے ہیں۔ فارسی زبان میں خاندان کے سربراہ کو آغا کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لفظ” آغا “زمیندار ، سردار یا شیخ یا گھر کے خدمت گاروں کے امیر کیلئے بولا جاتا تھا۔ عسکری عہدوں پر فائز اکثر خدمت گاروں کو بھی آغا کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لفظ آغا قصر شاہی میں خسی خدام کیلئے بولا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں یہ لفظ ”خدام الحرمین الشریفین “ کےلئے مخصوص تھا۔ بہت ساری تاریخی کتابوں میں اغوات کی تاریخ امیر معاویہ بن سفیان کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ یہ پہلے امیر تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کی خدمت کیلئے غلام تعینات کئے۔ یزید بن معاویہ پہلے مسلم حکمراں ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ کی خدمت کیلئے "خصی" خدام مقرر کئے۔ مورخ رفعت باشا کے مطابق مسجد الحرام میں اغوات کی تقرری کرنے والے پہلے مسلم حکمراں ابو جعفر المنصور ہیں۔ جہاں تک مسجد نبوی کے اغوات کا تعلق ہے تو انکی تاریخ صلاح الدین بن ایوب کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ یہ پہلے حکمراں ہیں جنہوں نے مسجد نبوی شریف کیلئے خسی خدام متعین کئے۔ بعض روایات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اغوات کا رواج حبشی قبائل کے یہاں سے شروع ہوا ہے۔ یہ قبائل اپنی اولاد کو کم عمری میں نامرد بنا دیتے اور انہیں حرمین شریفین کی خدمت کے لیے وقف کردیا کرتے تھے۔ اور نئے اغوات حرمین شریفین کے کارکنان کی مدد سے تلاش کیے جاتے تھے۔ حرمین شریفین کے کارکن جب بھی حبشہ جاتے تو انہیں ’آغا‘ والی خصوصیات کے حامل افراد تلاش کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی تھی۔ جب ان میں سے کسی ایک کو مطلوبہ شخص مل جاتا تو وہ اس کی اطلاع شیخ الاغوات کو دیتا اور وہ حرمین شریفین میں خدمت کے لیے رسمی تقرری کی خاطر اس کی درخواست حکام کو پیش کردیتا۔ مسجد نبوی شریف کے شیخ الاغوات شیخ سعید بن آدم بن عمر آغا نے 2011ءمیں شائع ہونے والے اپنے اخباری انٹرویو میں اس بات کی تردید یہ کہہ کر کی ہے کہ "مشہور یہی ہے کہ اغوات کو ان کے والدین خصی کرکے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حرمین شریفین کی خدمت کیلئے بھیجا کرتے تھے۔ یہ دعویٰ درست نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حبشہ پر اٹلی کی لشکر کشی کے موقع پر بچوں کو خغی کیا گیا تھا۔ یہ حرکت اہل حبشہ نے نسل کشی کی غرض سے کی تھی۔ اغوات کی زندگی کے متعدد خفیہ پہلوﺅں کو سامنے لاتے ہوئے واضح کیا کہ اغوات مالدار ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ باپ بننے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوتے ہیں۔ مدینہ میں قباء کے محلے میں موجود مسجد آلآغا اس کا روشن ثبوت ہے۔ یہ مسجد اب بھی موجود ہے۔ اغوات کے نام سے رباط کا وقف بھی پایا جاتا ہے۔ اغوات اپنی امارت کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور نہ انہیں اپنی دولت کسی کو ہبہ کرنے یا اس میں تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ان کی موت پر ان کی املاک ادارۂ اوقاف کے حوالے ہوجاتی ہیں۔ ان کی نہ اولاد ہوتی ہے اور نہ نسل۔ ان کا سلسلہ ان کی موت پر ختم ہوجاتا ہے۔ الاغوات کا محلہ مدینہ منورہ کے مشہور محلوں میں سے ایک ہے۔ اس کی گلی باب جبریل کے سامنے سے شروع ہوکر اور باب جمعہ کی جانب چلتی تھی۔ الاغوات محلے کے گھر عام طور پر بڑے پرانے طرز کے ہوتے تھے۔ یہ مٹی اور اینٹوں کے بنے ہوتے تھے۔ دو اورتین منزلہ ہوتے تھے۔ الاغوات محلے کی کئی گلیاں مشہور ہیں۔ حرمین شریفین کی عظیم الشان خدمات کے اعتراف کے طور پر سعودی عہد اقتدار میں اغوات کو بڑی قدر و منزلت حاصل ہوئی۔ 1346 ھجری میں سعودی عہد کے آغاز ہی سے اغوات کے ساتھ خصوصی برتاؤ شروع کردیا گیا۔ بانیٔ مملکت شاہ عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان جاری کرکے واضح کیا کہ ’ اغوات حرم ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اپنی خصوصی حیثیت پر قائم رہیں گے، کسی کو بھی ان پر نہ اعتراض کا حق ہوگا اور نہ ان کے امور میں کوئی مداخلت کا اختیار ہوگا‘۔ شاہ عبدالعزیز کی وفات کے بعد شاہ سعود نے 4 ربیع الاول 1374 ھ کو اپنے والد کے فرمان کی تصدیق و توثیق کرتے ہوئے مندرجہ ذیل فرمان جاری کیا: ’ہم اغوات الحرم کو ان کے نظم ونسق پر جوں کا توں برقرار رکھتے ہیں، اغوات کا سربراہ اور انکا گروہ اپنے داخلی نظام کے حوالے سے خودمختار ہیں، کوئی شخص بھی ان کے امور میں نہ تو مداخلت کرے گا اور نہ اغوات کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بنے گا‘۔ اغوات بتاتے ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ فہد ہر سال ان کے نام شاہی تحفہ بھیجا کرتے۔ وہ ان کے لیے مشلح بھی ارسال کیا کرتے تھے۔ یہ تحفہ انہیں مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کی جنرل پریذیڈنسی کے توسط سے ملا کرتا تھا۔ سعودی حکومت انہیں تنخواہیں دیتی ہے۔ علاوہ ازیں اوقاف سے ہونے والی آمدنی ان میں برابر برابر تقسیم کردیتی ہے۔ اغوات کے اوقاف مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف اور الاحساء میں پائے جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے اغوات کیلئے بھی اوقاف مقرر ہے جبکہ مدینہ منورہ کے اغوات کیلئے خود شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موقوفہ جائدادیں ہیں۔ بیرون سعودی عرب ، عراق، مراکش اور یمن میں بھی اغوات کے لیے اوقاف ہیں۔ ان سے انہیں بھاری آمدنی ہوتی ہے۔ ماضی میں اغوات حرمین شریفین میں خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ ان میں مطاف کو دھونا، حرمین شریفین کو کبوتروں کے فضلے سے صاف کرنا اور شمعیں روشن کرنا وغیرہ شامل تھا۔ ماضی قریب تک اغوات صرف چار کام انجام دیتے رہے ہیں جو یہ ہیں: 1- بادشاہ اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کے استقبال میں حصہ لینا۔ 2- ریاست کے مہمان سربراہوں، وزراء اور ان کے ہمراہ آنے والی شخصیتوں کی خدمت 3- ان کے لیے قالین بچھانا 4- آب زمزم پیش کرنا۔ اغوات حرمین شریفین میں صفائی، نظم و ضبط اور خواتین و مردوں کو الگ الگ کرنے کے کام پر مامور ہیں۔ اسی طرح سے جب مسجد نبوی شریف بند کی جاتی تو اغوات ہی خواتین کو مسجد سے نکالنے کی ذمہ داری انجام دیتے تھے۔ اذان کے بعد خواتین کو طواف سے روکنا۔ مسجد نبوی شریف میں اغوات روضہ مبارکہ کی صفائی پر مامور رہے ہیں، ضرورت پڑنے پر مہمانوں کے لیے روضہ کا دروازہ کھولتے تھے، سرکاری مہمانوں کو باب سلام پر خوش آمدید کہتے تھے اور مسجد نبوی شریف سے رخصت ہونے تک ان کے ہمراہ رہتے تھے۔ اغوات کارِ خیر کے لیے مشہور رہے ہیں۔ ان میں عالم فاضل اور فقیہ بھی گزرے ہیں۔ مدینہ منورہ کے بعض اغوات نے فلاحی کاموں اور ضرورت مندوں کی مدد میں بڑا نام کمایا۔ ان میں ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے مساجد، مدارس اور رباطیں قائم کرائیں۔ اب جبکہ اغوات کا سلسلہ ختم ہورہا ہے۔اب صرف تین اغوات حیات ہیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کہیں اغوات تاریخی اوراق سے بھی غائب نہ ہوجائیں جن ان لوگوں نے حرمین شریفین کی خدمت کیلئے اپنی زندگیاں تج رکھی تھیں۔منصور ندیم --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:06، 3 نومبر 2020ء (م ع و)

واپس "اغوات" پر