تبادلۂ خیال:اڑن طشتری
اڑن طشتریاں (Flying Saucers) یوں تو اڑن طشتریوں کے بارے میں بچپن سے ہی پڑھتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس وقت ان کہانیوں کو بچے پریوں کی کہانیوں کی طرح پڑھتے تھے۔ اڑن طشتریوں کو یو۔ ایف۔ او (U.F.O) یا Unidentified Flying Objects یعنی نامعلوم اڑنے والی چیزیں کہا جاتا ہے، یہ کسی جدید معدن اور پلاسٹک کے مرکب سے تیار کی جاتی ہیں، یہ معدن چمکدار ہوتا ہے جو دور سے دیکھنے میں تیز سفید روشنی کے مانند نظر آتا ہے۔ ایک ہی اڑن طشتری بیک وقت اپنا حجم چھوٹا اور اتنا بڑا کر سکتی ہے کہ اپنی آنکھوں پر شک ہونے لگے اور دیکھنے والے بے ہوش ہوجائیں۔ اس کے اندر عام طور پر نارنجی (Orange)، نیلی اور سرخ رنگ کی روشنیاں پھوٹ رہی ہوتی ہیں، اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک سیکنڈ میں نظروں سے غائب ہوجاتی ہے، جورفتاراب تک ریکارڈ کی جاسکی ہے وہ سات سو (700) کلومیٹر فی سیکنڈ یعنی پچیس لاکھ بیس ہزار (2520000)کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ وہ رفتار ہے جو ہم دنیا والوں کو معلوم ہے، اصل رفتار کا کسی کو علم نہیں۔ فضاء میں ایک ہی جگہ رکی رہ سکتی ہے، چیزوں اور افراد کو اپنی طرف دور سے ہی کھینچ لیتی ہے، اگر کوئی اس کے قریب جائے تو اس کے جسم میں شدید قسم کی خارش شروع ہو جاتی ہے اور آنکھیں جلنے لگتی ہیں اور جسم میں اس طرح جھٹکا لگتا ہے جیسے سخت کرنٹ لگ گیا ہو۔ دنیا کے بجلی کے نظام اور مواصلاتی نظا م کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے (امریکا میں ایسا ہو چکا ہے 9 جون 2007 امریکا کے مشرقی ساحلی علاقے اٹلانٹا اور جارجیا میں ہوائی اڈے پر پروازوں کی آمد و رفت معطل ہو گئی اور ہزاروں ملکی اور غیر ملکی پروازیں تعطل کا شکار ہوئیں، اس کا سبب مسافرطیاروں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے والے نظام کا اچانک فیل ہوجانا تھا) لیزر شعاعوں کے ذریعے دنیا کے جدید تریں طیاروں کو بآسانی تباہ کرسکتی ہے۔ یہ اڑنے کے ساتھ ساتھ سمندر کے اوپر اور سمندر کے اندر اسی طرح چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جہاں تک اس کی ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو صرف ابھی اندازہ ہی ہے، وہ یہ کہ اس کائنات میں موجود تمام توانائی کے ذرائع اڑن طشتری کی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں قوتِ کشش اہم ہے، اڑن طشتریوں کا راز جاننے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے ڈاکٹر جیسوب کا کہنا ہے"یہ غیر معروف چیزیں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ (اڑن طشتری والے) بہت طاقتور مقناطیسی میدان بنانے پر قدرت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ جہازوں اور طیاروں کو کھینچ کر کہیں لے جاتے ہیں"۔
اڑن طشتریاں آنکھوں کا دھوکا یا حقیقت ۔۔۔۔۔ اڑن طشتریاں اب تک دنیا کے مختلف خطوں میں دیکھی گئی ہیں، لیکن برمودا تکون کی طرح ان کی حقیقت کو بھی گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی گئی ہے حتی کہ بعض نے تو ان کے وجود کا ہی انکار کر دیا ہے کہ ایسی کوئی چیز دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی۔ ان کے بارے میں ایک یہ نظریہ مشہور کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ خلائی مخلوق کی سواری ہے اور ان میں خلائی مخلوق سوار ہو کر ہماری اس معلوم دنیا میں گھومنے پھرنے کی غرض سے آجاتی ہے۔ یہ نظریہ بھی اصلی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اڑن طشتریوں کے وجود کا انکار اب اس وجہ سے بھی ممکن نہیں رہا کہ ان کو دیکھے جانے کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ نیز بیک وقت دیکھنے والوں تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب پر کسی وہم، تخیل یا جھوٹ کا الزام لگا کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ چند سالوں میں لوگوں نے ان کی تصویریں اور ویڈیو بھی بنائی ہیں۔ نوٹ : یوٹیوب پر لاکھوں ویڈیوز موجود ہیں جن میں ہر سال مختلف مقامات پر نظر آنے والی اڑن طشتریوں کی فوٹیج کو جمع کیا جاتا ہے۔ ایڈمن۔ یوٹیوب لنک تحریر کے آخر میں دیکھیں۔۔
اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے واقعات جب زیادہ ہونے لگے تو بعض ممالک کی جانب سے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا اور 1976 میں اقوامِ متحدہ نے اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا۔ تمام رکن ممالک کو ہدایت کی کہ وہ اڑن طشتریوں کی دریافت کے آلات اپنے اپنے علاقوں میں نصب کریں تاکہ ان کی حرکات و سکنات کو آلات کے ذریعے ریکارڈ کیا جاسکے۔ بیسویں صدی کے آخر میں ایک گیلپ سروے کیا گیا جس کے مطابق ایک تہائی امریکیوں کی رائے تھی کہ اڑن طشتری والے ہمارے ملک میں آچکے ہیں۔ چنانچہ جب اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے واقعات اتنے زیادہ ہو گئے کہ ان کو آنکھوں کا دھوکا کہہ کر رد کر دینا ممکن نہیں رہا تو عالمی فتنہ گر یہودیوں نے اس کو بھی برمودا تکون کی طرح افسانوی قصے کہانیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے واقعات کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اس کی تاریخ بھی اس صدی کی ہے جو صدی دنیا میں شیطانی ریاست امریکا کے قیام کی ہے، یعنی پندرویں صدی عیسوی۔ جون 1400 میں بھی اڑن طشتری دیکھے جانے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ آپ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ یہ پندرویں صدی سائنسی انقلاب کی صدی سمجھی جاتی ہے۔ تب سے لے کر آج تک دنیا کے مختلف خطوں میں اڑن طشتریاں دیکھی جاتی رہی ہیں۔ یہاں ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف گزشتہ سال (2008) میں اڑن طشتری دیکھے جانے کے واقعات مہینے کے اعتبار سے پیش کر رہے ہیں یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ متعلقہ اداروں کو کی گئی: جنوری:443 فروری:352 مارچ: 312 اپریل:420 مئی:317 جون:419 جولائی:495 اگست:448 ستمبر:352 نومبر:393
اپریل 1952 میں ڈان کیمبل جو سیکریٹری برائے بحری (امریکی) وزارت تھا، جزائر ہوائی کے اوپر سفر کر رہا تھا، اس نے دیکھا کہ دو اڑن طشتریوں بہت تیزی کے ساتھ ان کے طیارے سے قریب ہو رہی ہیں، پھر وہ دونوں اڑن طشتریاں ان کے طیارے کے گرد چکر لگانے لگیں جیسے طیارے کی تلاشی لے رہی ہوں۔ کیمبل جب واشنگٹن واپس آیا تو اس نے امریکی فضائیہ سے اس بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ لیکن امریکی فضائیہ اور امریکی سی آئی اے نے اس کو یہ بات سمجھا دی کہ اگر اپنی نوکری کو بچانا چاہتے ہو تو جو کچھ آپ نے دیکھا ہے اس کو بھول جاؤ۔
1947 سے 1969 تک امریکی ائیر فورس نے اڑن طشتریوں کے بارے میں تفتیش کی۔ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے واقعات کی جو رپورٹیں موصو ل ہوئیں تھیں ان کی تعداد 12618 تھی۔ اڑن طشتریوں میں سوار قوتوں نے یہ کوشش کی ہے کہ دنیا والے ان کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھیں، اس لیے انہوں نے اپنا حلیہ خلائی مخلوق کی طرح بنا کر انسانوں کے سامنے خود کو ظاہر کیا ہے چنانچہ ان کو (Aleins) یعنی پردیسی یا اجنبی کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پردیسی نہیں بلکہ اسی دنیا کے لوگ ہیں جو عالمی کفریہ طاقتوں کے اہم لوگو ں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
اڑن طشتری والوں کی امریکی صدر سے ملاقات ۔۔۔۔۔۔۔ 1951 میں ایک اڑن طشتری امریکا کے ایک فوجی ائیر پورٹ پر اتری، اس اڑن طشتری کے اندر سے تین آدمی نکلے جو روانی سے انگریزی بول رہے تھے، انہوں نے امریکی صدر آئزن ہاور (یہ اس کے بعد صدر بنے) سے ملاقات کے لیے کہا، وہاں موجود فوجی افسران نے امریکی صدر آئزن ہاور (دورِ صدارت 1953تا 1961)سے رابطہ کیا، چار گھنٹے بعد امریکی صدر وہاں آیا اور اس نے اڑن طشتری والوں سے ملاقات کی۔ امریکی صدر کے ہمراہ تین فوجی تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دن ائیر پورٹ پر تمام کاروائیاں نا معلوم وجوہات کی بنا پر معطل رہیں، چنانچہ نہ تو کوئی فوجی اپنی جگہ سے ہلا نہ کوئی طیارہ اڑا نہ اور کوئی کام ہوا۔ مکمل ایمر جنسی نافذ کر دی گئی پھر اڑن طشتری غائب ہو گئی۔ 1976 میں پورٹوریکو (جو برمودا تکون کی حدود میں ہے) میں اتنی زیادہ اڑن طشتریاں نظر آئیں کہ ان کو دیکھنے کے لیے ہائی وے پر چلتا ٹریفک جام ہوکر رہ گیا اور گاڑیوں کے انجن خودبخور ہی بند ہو گئے، ٹی وی ،ریڈیو اور پریس کے بندے ان اڑن طشتریوں کے کرتب دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے، تین ماہ تک اڑن طشتریوں کے پورے بیڑے بار بار ظاہر ہوتے رہے جیسے یہ کوئی معمول کی پرواز ہو۔ جب عوام اور صحافیوں کی جانب سے اس بارے مین زیادہ شور ہونے لگا تو 24 ستمبر 1952 کو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے شعبہ سراغ رسانی برائے سائنسی امور کی جانب سے ایک میمورنڈم جاری کیا گیا جس میں اڑن طشتریوں کی خبروں پر تبصرے کرنے کو قومی سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا، ذرا غور فرمائیے ،ایسا ان اڑن طشتریوں میں کیا ہے جس کو امریکی حکومت چھپانا چاہتی ہے اور اس پر تبصرے کو سیکورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
اڑن طشتری پاکستان میں
ڈیرہ غازی خان ۔۔۔ 29 اگست 2000 اتوار کی رات ڈیرہ غازی خان میں اڑن طشتری دیکھی گئی۔ دو ہفتوں میں یہ یورینیم سے مالا مال علاقے میں دوسری مرتبہ نظر آئی۔ روزنامہ ڈان کے مطابق یہ اڑن طشتری مغرب کی جانب سے آئی اور فورٹ منرو اور راکھی گنج کے اوپر سے اڑتی ہوئی Baghalchor اور Roughin کے درمیان زمین کی طرف اتری۔
لاہور 8 اکتوبر 2008 شام 8:05 پر لاہور میں امان کریم صاحب نے آٹھ اڑن طشتریاں دیکھنے کا دعوی کیا، ان کے بقول یہ V کی شکل میں مشرق کی جانب جا رہی تھیں۔
راولپنڈی جنوری 1998 میں راولپنڈی کے آصف اقبال صاحب نے اپنے بارے میں یوں بتایا: یہ اور ان کے ایک دوست صبح فجر سے پہلے اپنی چھت پر تھے، اس وقت انہوں نے آسمان میں کچھ ایسی روشنیاں دیکھی جن کی شکلیں بار بار تبدیل ہو رہی تھیں، ان کے بقول یہ اڑن طشتریاں تھیں کیونکہ یہ روشنیاں کسی اور چیز کی نہیں ہو سکتیں، آصف اقبال صاحب راولپنڈی میں مائکرو ٹیک انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (پرائیویٹ) نامی ادارے میں نیٹ ورک ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ملازم ہیں۔
اڑن طشتری بھارت میں 23 جنوری 2008 جنوبی ہند میں پانچ اڑن طشتریوں ایک ساتھ دیکھی گئیں، یہ کئی منٹ تک بہت نیچائی پر گھومتی رہیں، اس کی ویڈیو مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائی۔ 28 اگست 2008 بروز جمعرات بھارت کے شہر ممبئی میں ساحلِ سمندر "گیٹ وے انڈیا" پر سیر سپاٹے کے لیے آنے والے شہریوں کا ہجوم تھا، بہت سے لوگ اپنے مووی کیمروں اور موبائل فون سے ایک دوسرے کی ویڈیو بنا رہے تھے، ابھی دن کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی ،اچانک ساحل سے بالکل قریب انتہائی نیچے ایک بڑی اڑن طشتری نمودار ہوئی، لوگوں نے اپنے کیمرے فوراً اس کی جانب کردئے اور اس کی فلم بنالی، چار سیکنڈ تک یہ نظر آتی رہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی، یہ اڑن طشتری حجم میں بہت بڑی ہے اور اس کی فلم بالکل واضح ہے جو آپ اس لنک پر دیکح سکتے ہیں : https://www.youtube.com/watch?v=v37zYAjWZms
جمی کارٹر نے بھی اڑن طشتری دیکھی ۔۔۔۔۔۔ سابق امریکی صدرجمی کارٹر (دورِ صدارت 1977 تا 1981) وہ واحد امریکی صدر ہے جس نے اڑن طشتری خود دیکھنے کا دعوی کیا، جمی کارٹرکا کہنا ہے: I dont`t laugh anyone at people when they say they have seen UFOs because i have seen one myself (An interview to ABC news) "میں ان لوگوں پر بالکل نہیں ہنستا جو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اڑن طشتریاں دیکھی ہیں، کیونکہ میں خود ایک اڑن طشتری دیکھ چکا ہوں"۔(اے بی سی کو ایک انٹرویو میں) اس واقعے کی تفصیل آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں : http://www.ufoevidence.org/documents/doc782.htm
جمی کارٹر کے بقول جب وہ 1969 میں جارجیا میں لائنز کلب کے ایک اجلاس میں شریک تھے ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ اور دیگر لوگ بھی اڑن طشتری دیکھنے والوں میں تھے۔ اس کے بعد جمی کارٹر نے یہ وعدہ کیا کہ میں وائٹ ہاوس میں پہنچنے پر اڑن طشتریوں کے واقعات کی تحقیق کے لیے ماہرین اور سائنسدانوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دوں گا تاکہ وہ ہمیں ان کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ لیکن جمی کارٹر امریکی کی صدارت پر فائز ہونے کے باوجود اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے، کیوں؟ کیا امریکی میں کوئی اور بھی قوت ہے جو امریکی صدر سے زیادہ طاقتور ہے؟ کیا ان اڑن طشتریوں کے مالک کے سامنے امریکی صدر بھی بے بس ہے؟ یا جمی کارٹر کو "خفیہ طاقت" نے یہ دھمکی دی اگر جان پیاری ہے تو اڑن طشتریوں کو بھول جاؤ۔ برمودا تکون میں جو غیر معمولی واقعات و حادثات ہوتے رہتے ہیں ان سے متعلق رپورٹوں پر بڑی سخت پابندی عائد کر دی گئی ہے، اب نہ انہیں مشتہر کیا جاتا ہے اور نہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان واقعات میں اڑن طشتریوں کا آسمان میں دیکھا جانا، برمودا کے سمندر میں داخل ہونا اور برمودا کے سمندر میں پانی کے اندر ہزاروں فٹ نیچے ان کا دیکھا جانا شامل ہے۔ اس رپورٹ کو بھی سختی سے دبایا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ 1963 میں پورٹوریکو کے مشرقی ساحل پر امریکی بحریہ نے اپنی مشقوں کے دوران میں ایک اڑن طشتری دیکھی تھی جس کی رفتار دو سو ناٹ تھی اور وہ سمندر کے اندر نیچے ستائیس ہزار فٹ گہرائی میں سفر کر رہی تھی۔
اڑن طشتری کا تعاقب۔۔۔ انجام کیپٹن تھامس مینٹیل ایک بہت بڑی اڑن طشتری کا تعاقب کرتے ہوئے جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا۔ 7 جنوری 1948 کو کیپٹن مینٹیل نے P-51 میں پرواز شروع کی۔ اس پرواز کا مقصد ایک بہت بڑی اڑن طشتری کی شناخت کی تصدیق کرنا تھا۔ یہ اڑن طشتری دن کے وقت کھلے آسمان میں بڑی واضح دکھائی دے رہی تھی۔ اڑن طشتری کے تعاقب کے دوران ہی کیپٹن مینٹیل کی موت واقع ہو گئی اورطیارہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل ہوکر فضاء میں بکھر گیا۔ طیارے کے جو ٹکڑے ملے انہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے طیارے پر شدید قسم کی گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔ اس واقعے کی تفصیل اس لنک پر دیکھیں : https://en.wikipedia.org/wiki/Mantell_UFO_incident
اڑن طشتریوں کے ذریعے انسانوں کا اغواء اڑن طشتری کے ذریعے انسانوں کو اغواء کیے جانے کے واقعات بھی مستند حوالوں سے سامنے آتے رہے ہیں، ان میں مشہور واقعات یہ ہیں: 1960 میں کیلیفورنیا کے ائیر بیس سے F-101 طرز کا طیارہ تربیتی پرواز کے لیے اڑا۔ اسے ائیر فورس کا ایک میجر اڑا رہا تھا۔ مشن کی تکمیل کے بعد واپس آتے ہوئے یہ طیارہ ریڈار پر دیکھا جا رہا تھا۔ اچانک ریڈار اسکرین پر طیارے کے نظر آنے والے عکس کو ایک بڑی اڑن طشتری کے عکس نے ڈھانپ لیا کہ جیسے طیارے کو اس طشتری پر اتار لیا گیا ہے، اس کے بعد ریڈار اسکرین بالکل خالی رہ گئی۔ نہ طیارہ اور نہ ہی اڑن طشتری کا کچھ پتہ تھا۔ تلاش جاری تھی کہ اگلی صبح طیارہ پھر نمودار ہوا جسے اب وہی میجر اڑا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اسے طیارے سمیت اس اڑن طشتری میں اتار لیا گیا تھا جہاں ایک انسان نما مخلوق نے اس سے انٹرویو لیا۔ اس کی رپورٹ کے مطابق اسے اور اس کے طیارے کو دس گھنٹے بعد چھوڑا گیا، اس کے بعد پکڑے جانے کے وقت طیارے میں بیس منٹ کا ایندھن تھا اور جب اس کو چھوڑاگیا تب بھی اس میں اتنا ہی ایندھن باقی تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ دس گھنٹے میں اس کا بالکل بھی ایندھن خرچ نہیں ہوا تھا۔ اس میجر کو ایک نفسیاتی ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور پھر کسی کو پتہ نہ چلا کہ اس کا کیا ہوا؟ نیز اس واقعے کے تمام گواہوں کو سخت ہدایت کر دی گئی کہ اگر کسی نے اس واقعے کے بارے میں زبان کھولی تو اس کو جرمانے اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ 1989 میں نیو یارک کے پر ہجوم علاقے مین ہٹن کے ایک اپارٹمنٹ کی بارہویں منزل پر اپنے شوہر کے ساتھ سوئی "لِنڈا" کواڑن طشتری والوں نے اغواء کر لیا۔ اس پر خوب تجربات کیے اور چھوڑ گئے،اس واقعے کے بعد لِنڈا کینگرانی کے لیے امریکی انتظامیہ کی جانب سے دو خفیہ ایجنٹ لگا دیے گئے، لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے دوبارہ 30 نومبر 1989کی صبح تین بجے نیویارک جیسے رات جاگتے شہر کے بیچ و بیچ "مین ہٹن"میں اڑن طشتری نمودار ہوئی اور لِنڈا کے اپارٹمنٹ کے اوپر چکر کاٹتی رہی، ان کے ساتھ ایک بین الاقوامی سفارت کار بھی اس واقعہ کا عینی شاہد ہے جو اپنی کار میں کسی میٹنگ سے واپس آ رہا تھا، جب ان کی کاروں کا قافلہ بروکلین برج پر پہنچا تو ان سب کی کاروں کے انجن خود ہی بند ہو گئے۔ اس واقعے کی تفصِل اس لنک پر موجود ہے : http://www.ufocasebook.com/Manhattan.html
برمودا تکون اور اڑن طشتریوں کے بارے میں سیکڑوں تحقیقی ٹیمیں بنائی گئیں۔ تحقیقات ہوئیں لیکن رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں آنے دی گئی، تمام رپورٹیں فائلوں میں بند پڑی رہ گئیں، اگر کسی نے بات نہ مان کر اپنی تحقیق کو جاری رکھا تو اس کو جان سے ہی ہاتھ دھونا پڑا۔ ابتدا میں اڑن طشتریوں کی حقیقت کو چھپانے کے لیے خفیہ قوتوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ اڑن طشتری دیکھنے کی گواہی دینے والے وہمی (Fantasy Prone) ہیں۔ لیکن جب وائٹ ہاؤس کے اوپر بیک وقت بیس اڑن طشتریاں نظرآئیں تو ایک اور بہانا بنایا گیا۔ لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے جو "پکنک" منانے ہمارے زمین پر آجاتی ہے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اگر یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے تو ان کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کو موت کی نیند کیوں سلادیا گیا ،چنانچہ غیر جانبدار محققین کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کے بارے میں ایسا کچھ ضرور ہے جس کو امریکا میں موجود انتہائی طاقتور لیکن خفیہ ہاتھ دنیا والوں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر جیسوب کو جو اڑن طشتریوں اور برمودا تکون کی حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔
اڑن طشتریوں میں سفر کرنے والے عام انسان ہیں ۔۔۔۔ جن محققین نے غیر جانبداری کے ساتھ برمودا تکون پر تحقیقی کام کیا وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اڑن طشتریوں والے کوئی خلائی مخلوق نہیں جیسا کہ ان کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی بلکہ ہماری اسی دنیا کے انسان ہیں، البتہ وہ اپنے حلیہ اپنے لباس اور اپنی چال ڈھال سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ انسان نہیں بلکہ خلائی مخلوق ہیں، ان کا جسم ہمارے جسم کی طرح ہے، ناک کان، منہ، ہاتھ، پاؤں اور دیگر اعضاء بھی عام انسانوں کی طرح ہیں، اس کی دلیل میں بہت سارے واقعات ہیں، جن کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا سمجھنا کافی ہے کہ اڑن طشتری والوں کے ذریعے جن افراد کو اغواء کیا جاتا رہا ان کے بیان کے مطابق اغواء کرنے والے ہماری طرح انسان ہی ہیں، البتہ وہ ہر زبان میں بات کر سکتے ہیں۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئینسٹائن کا بھی اس بارے میں یہی نظریہ (شاید علمِ یقین ہے) ہے، ہفت روزہ الاسبوع العربی نے 29 جنوری 1979 کے شمارے میں لکھا "البرٹ آئنسٹائن کے مطابق بلا شک و تردید اڑن طشتریاں موجود ہیں اور یہ اڑن طشتریاں جن ہاتھوں کے کنٹرول میں ہیں وہ بھی انسان ہی ہیں"۔(بحوالہ برمودا ٹرائینگل: مصنف راجپوت اقبال احمد) جو اڑن طشتریاں حادثات کا شکار ہوئیں ان میں سے ملنے والی لاشیں انسانوں کی تھیں، اگریہ انسان ہی ہیں تو ان کا بادشاہ یا مالک کون ہے؟ اس قدر جدید ٹیکنالوجی اور بے پناہ خفیہ کمین گاہوں میں بیٹھ کر وہ کس کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں؟ امریکی صدر آئزن ہاور سے انہوں نے ملاقات کی، دیگر امریکی صدور ان کے بارے میں رپورٹیں کیوں نہیں شائع کرتے؟ ان سب باتوں سے یہ سمجھ آتا ہے کہ ان کی حقیقت کے بارے میں اس یہودی لابی کو اچھی طرح علم ہے جو امریکا وبرطانیہ سمیت اس وقت تمام دنیا پر قابض ہے، جبکہ اڑن طشتری والے خواہ جو بھی ہیں، اس یہودی لابی سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ وہ کون ہیں جو ہماری اس معلوم دنیا کی ٹیکنالوجی سے کئی صدیوں آگے ہیں؟ فضاؤں، خلاؤں، خشکی و تر میں اگر ان کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی ہے تو دیگر روزمرہ کے استعمال کی اشیاء ان کے پاس کیسی ہوں گی؟ اڑن طشتریوں کے بارے اہم اہم معلومات جو ماشاہدات اور تحقیقات پر مبنی تھیں وہ پیش کردی گئی باقی جو اصل حقائق ہیں وہ خدا بہتر جانتا ہے کہ برمودا تکون اور اڑن طشتریوں کے پیچھے کون ہے؟؟ اتنی جدید ٹیکنالوجی ان قوتوں نے کس سے جنگ کرنے کے لیے بنائی ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟؟ بعض اسلامی اسکالرز اور محققین کا یہ خیال ہے کہ یہ دجالی قوتیں ہیں جو یہودیوں سے رابطے میں ہیں اور دجال کے دنیا میں آنے کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ٹیکنالوجی میں ہم سے کئی گنا آگے ہیں۔ بحرحال یہ ان کی رائے ہے بہت سے لوگوں کو اس سے اختلاف بھی ہے لیکن اب تک یقینی بات کوئی نہیں بتاسکا ہے ۔
نوٹ : یہ معلومات کتاب بنام ’’برمودا تکون اور دجال‘‘ صفہ 63 سے لی گئی ہیں ان معلومات کو مختصر کرکے ذکر کیا گیا ہے اگر آپ اس کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ کریں ۔ یہ کتا ب اس لنک پر دستیاب ہے : http://urdulibrary.paigham.net/2011/10/20/barmooda-takone-aur-dajjal/
امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:46, 19 نومبر 2016 (م ع و)
مستقبل سے ماضی کا سفر
ترمیمشاهد كه u f o کو جديد انسان کے اپنے ماضی کے سفر کے دوران ہم ان کو دیکھ پاتے ہے Tabib bin tabib (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:20, 28 دسمبر 2017 (م ع و)
fake All about UFO Haroon ali12345 (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 20:08, 31 جنوری 2018 (م ع و)
alian 's fake ,all about of alian's Haroon ali12345 (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 20:09, 31 جنوری 2018 (م ع و)