تبادلۂ خیال:برہان احمد فاروقی

چند معلومات ترمیم

آج ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمہ اللہ کا یوم وفات ھے۔ آپ رحمہ اللہ کا ایک دلچسپ واقعہ سنیئے؛ ڈاکٹر محمد اکرم چوھدری صاحب سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا، استاد صاحب رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ھیں۔ ان سے ملاقات ھوئی تو انہوں نے بتایا؛ صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ اسلام آباد کئی بار ان سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر چوھدری کہتے ھیں، میں نے فاروقی صاحب سے کہا آپ ایوب خان کو کہہ دیتے تو وہ آپ کو کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا دیتا۔ ڈاکٹر فاروقی رحمہ اللہ نے فرمایا؛ اس ریکروٹ نے مجھے متاثر ھی نہیں کیا تو میں اس سے کیسے کوئی ڈیمانڈ کرتا؟ سبحان اللہ، سبحان اللہ العظیم: کس عظیم ظرف کے لوگ تھے، اقتدار اور طاقت متاثرکن شے ھی نہیں ھے۔ واہ۔(خضر یاسین) چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمہ اللہ سے میری ملاقات، کب اور کیسے ھوئی؟ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمہ اللہ کے نام سے میں 1988ء کے ستمبر یا اکتوبر میں اس وقت واقف ھوا جب عبدالرحمن بخاری صاحب نے کراچی میں مجھے اپنی تنظیم "امہ فاونڈیشن" میں شامل ھونے کے لیے قائل کرتے ھوئے کہا؛ خضریاسین لاھور میں ایک صاحب ھیں جو علامہ اقبال سے بڑے مفکر ھیں مگر انہیں کوئی نہیں جانتا کیونکہ ان کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ھے۔ میں نے پوچھا وہ کون ھیں؟ تو بخاری صاحب نے کہا ڈاکٹر برہان احمد فاروقی۔ 11 اگست 1991 کو کراچی چھوڑ کر میں لاھور آ گیا۔ ستمبر 1991 میں بخاری صاحب ھانگ کانگ چلے گئے اور ایک رسالہ "آگاھی" دے گئے جو اس وقت امہ فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے چھپتا تھا، اس میں ڈاکٹر فاروقی صاحب کا ایک مضمون تھا، یہ رسالہ ڈاکٹر فاروقی صاحب تک مجھے پہنچانا تھا۔ بخاری صاحب نے ڈاکٹر فاروقی صاحب سے ملنے کی میرے لئے ایک سبیل پیدا کی تھی۔ ڈاکٹر حافظ طارق محمود صاحب اور میں ستمبر کی ایک شام صلاح الدین اسٹریٹ اسلامیہ پارک میں ڈاکٹر فاروقی صاحب کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ تشریف لائے اور کھڑے کھڑے سلام عرض کرنے کے بعد میں نے رسالہ پیش کیا تو کہنے لگے اس کے لیے کوئی مضمون لکھنا ھے؟ میں نے عرض کیا نہیں، آپ کا ایک مضمون اس میں ھے۔ آپ کی خدمت میں یہ رسالہ پیش کرنے کے لیے لائے ھیں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر جناب کی رفاقت کے چند لمحات مل جائیں تو نوازش ہوگی۔ کہنے لگے ضرور اور گھر سامنے والی گلی مسجد کی طرف چل پڑے۔ مسجد میں آدھا گھنٹا بیٹھے اور فاروقی صاحب گفتگو فرماتے رھے۔ میں اعتراف کرتا ھوں پہلے دن ان کی گفتگو کا بیشتر حصہ سمجھ نہیں آیا البتہ ایک احساس پیدا ھو گیا تھا کہ یہ جو کچھ کہہ رھے ھیں، کوئی اور کہتا ھے اور نہ کہہ سکتا ھے۔ اس دن کے بعد مسلسل آپ کی خدمت جانا شروع کیا اور استاد صاحب بھی میرا انتظار فرمانے لگے۔ ان کی خدمت میں بلاناغہ حاضری کا یہ سلسلہ، ان کے انتقال 14 جولائی 1995 تک جاری رہا۔ آپ علیہ الرحمة کے ساتھ گزارے ھوئے شب و روز کی تفصیل پھر کبھی عرض کروں گا۔ ایک دو واقعات عرض کر دیتا ھوں۔ اسلامیہ پارک والے گھر کے دو کمرے تھے جن میں آپ کے دو صاحبزادوں فضل الرحمان فاروقی اور ضیاء الرحمن فاروقی کی فیمیلی رھتی تھیں۔ صحن میں ایک چھوٹا کمرہ تھا جس میں استاد صاحب اور ان کی زوجہ محترمہ جن کا نام رئیسہ خاتون تھا رھتے تھے۔ استاد صاحب والے کمرے کے سامنے کچن تھا۔ یہ پانچ یا آٹھ مرلے کا مکان تھا۔ ایک بار میں حاضر ھوا تو فرمانے لگے میں تمہارے حوالے سے پریشان تھا کہ کہاں بیٹھاوں؟ تو میری زوجہ محترمہ نے یہ مشکل حل کر دی ھے۔ وہ کہتی ھیں؛ خضریاسین میرا بھی بیٹا ھے، اسے اسی کمرے میں لے آئیں۔ وہ انتہائی وضع دار اور باپرد خاتون تھیں۔ پچھلے دس سال سے کولھے کی ھڈی نکل جانے کی وجہ سے صاحب فراش تھیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ھوا سلام عرض کیا تو سلام کا جواب دینے کے بعد میری فیملی کی خیریت معلوم کی۔ اسی دوران فرمانے لگیں؛ تمہاری بیگم پڑھی لکھی ھے؟ میں نے عرض کیا جی بالکل نہیں، وہ ایک دن بھی سکول نہیں گئیں تو بڑے اطمینان کے ساتھ کہنے لگیں؛ "تم اس سے اپنے دل پر کوئی گرانی مت لینا کہ تمہارے استاد صاحب کی بیگم بھی ان پڑھ ھے"۔ ایک دن کہنے لگیں تمہیں شعر و شاعری سے بھی لگاو ھے؟ میں نے عرض کیا جی سننے اور لطف اٹھانے کی حد تک، اس بعد انہوں فارسی اساتذہ کے وہ اشعار سنائے کہ سبحان اللہ۔ اپنی ایک ڈائری بنائی ھوئی تھی، جس میں اردو اور فارسی کے بہت اعلی شعر لکھ ھوئے تھے۔ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ھوا، استاد صاحب ایک طرف لیٹے ھوئے تھے اور اماں جی رحمھا اللہ قرآن پاک کی ایک آیت پڑھ رھی تھیں اور پورے ذوق اور وجد کی کیفیت میں سر ھلائے جا رھیں تھیں، مجھے کہنے لگیں؛ خضریاسین اللہ پاک فرماتا ھے؛ ا لیس اللہ بکاف عبدہ۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ ۔ بار بار یہ آیت تلاوت کرتیں اور وجد میں سر ھلاتیں۔ میں ان کی کیفیت دیکھتا رھا اور یقین کیجئے کہ نفس مطمئنہ کے سواء میرے دل کوئی خیال نہیں تھا جسے میں ان کی نسبت فرض کر سکتا۔ ایک دفعہ میں پہنچا تو مجھے ایک کام کرنے کو کہا ھوا تھا، پوچھا کہ اس کا کام کا کیا ھوا؟ میں نے بتایا کہ متعلقہ آدمی تک آپ کا پیغام پہنچا دیا ھے۔ کہا ایک بار پھر انہیں کہہ دو، میں نے عرض کیا جی بہتر میں ایک بار پھر کہہ دیتا ھوں۔ پھر میرے سامنے انھوں نے اپنا منہ سختی سے بند کیا اور سختی کے ساتھ سانس لی، میں کچھ سہم سا گیا اور انھوں نے منہ ایک طرف کر لیا اور مجھے لگا کہ سو گئیں ھیں، لیکن یہ ان کا آخری سانس تھا اور وہ نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف منتقل ھو چکا تھا۔ میں بے خبری میں استاد صاحب سے اجازت لے کر چلا گیا۔ میرے بعد نوکرانی آئیں اور انھوں اماں جی رحمھا اللہ کو جگانے کی کوشش کی تو معلوم ھوا کہ آپ وفات پا چکی ھیں۔ میں اگلے دن پہنچا تو استاد صاحب رحمہ اللہ حسب معمول انتظار فرما رھے تھے اور سارا واقعہ بیان فرمایا، مجھے اطلاع نہ ھو سکی تھی، رات کو ھی اماں جی کو دفن کر دیا گیا تھا زوجہ محترمہ کے انتقال کے بعد استاد صاحب رحمہ اللہ بہت نڈھال ھو گئے اور ھمت چھوڑ بیٹھے تھے۔ اکثر فرماتے تھے "اب میں زیادہ پائدار نہیں ھوں، خضریاسین جو کچھ کرنا ھے جلدی کر لو۔ 1994 کے مارچ میں ممتاز بختاور ھسپتال لاھور علاج کی غرض سے داخل کرایا اور رات دن آپ کے ساتھ رھا۔ نقاہت کی وجہ سے استاد صاحب رحمہ اللہ نے آنکھیں بند کی ھوئی تھیں۔ آپ کا بڑے صاحبزادے جناب فضل الرحمان فاروقی نے مجھے مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ " بابا جان نے اپنی پوری عمر اپنے استاد ڈاکٹر سید ظفر الحسن کے لیے وقف کر دی ھوئی تھی اب تم وھی کچھ کر رھے ھو، میں نے ان سے کہا فضل الرحمان صاحب آپ مجھے غیرمنقسم ھندوستان میں کوئی شخص ظفر الحسن صاحب کا سا دیکھائیں دیں تو میں آپ کی بات کا کوئی مطلب سمجھ سکوں گا۔ استاد صاحب نے بند آنکھوں کے ساتھ میری طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ 1995 کے آغاز میں ہی یورک ایسڈ بہت بڑھ گیا تھا تو بہت بے چین رھتے تھے۔ میں علاج کے لیے جو کچھ کر سکتا تھا، مسلسل کرتا رھتا تھا۔ جون 1995 میں مجھے گاوں جانا پڑ گیا، جولائی یکم یا دو کو واپس آیا تو استاد صاحب رحمہ اللہ کی حالت بہت خراب تھی۔ میں اتفاق ھسپتال گیا، میاں محمد شریف صاحب حسب معمول ہر روز صبح مریضوں کی اعانت کے لیے ہسپتال کے مریضوں سے ملاقات کرتے تھے۔ میں بھی لائن میں کھڑا ھو گیا اور اپنی باری پر ان سے ملاقات کی اور استاد صاحب کی طبیعیت کی ناسازی کا انہیں بتایا اور علاج کا بندوبست کرنے کی درخواست کی۔ کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ھوئے، انھوں نے کہا؛ انہیں فورا یہاں ہسپتال لے آو۔ وہ استاد صاحب کو بہت اچھے طرح جانتے تھے، 5 جولائی کو اتفاق ہسپتال لے گیا اور داخل کرا دیا۔ ملک فیض الحسن صاحب کو میں نے بتایا کہ استاد صاحب اتفاق ہسپتال میں داخل ہیں تو وہ 6 یا 7 جولائی کو ہسپتال آئے اور میاں شریف صاحب سے خود ملے۔ جس کے نتیجے میں میاں شریف صاحب نے استاد کو پرائیویٹ روم میں منتقل کرا دیا اور علاج ھوتا رھا مگر طبیعیت نہ سنبھل پائی۔ رات کو استاد صاحب کے ساتھ میں رھتا تھا اور دن کے وقت ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانے جاتا تو استاد کے چھوٹے صاحبزادے ضیاء الرحمن فاروقی آ جاتے تھے۔ میں کالج سے فارغ ھو کر واپس آ جاتا تو وہ اپنے کام پر جاتے تھے۔ 14 جولائی کی شب استاد صاحب مجھے نسبتا پرسکون نظر آئے۔ صبح 6 ، 7 بجے ضیاء الرحمن صاحب آئے اور میں کالج کے لیے نکل گیا۔ واپس ہسپتال آیا تو کاونٹر والوں نے استاد صاحب کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ مجھے پکڑا دیا۔ 14 جولائی 1995 کوئی دس بجے آپ کا انتقال ھوا تھا۔ اس کے بعد وھی ھوا جو روٹین میں ھوتا ھے۔(خضر یاسین) ----امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:24، 14 جولائی 2020ء (م ع و)

بیرونی روابط کی درستی (فروری 2024) ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے برہان احمد فاروقی پر 3 بیرونی روابط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with [iabot.wmcloud.org/iabot/index.php?page=manageurlsingle this tool].

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 10:33، 25 فروری 2024ء (م ع و)

واپس "برہان احمد فاروقی" پر