تبادلۂ خیال:حجاج بن یوسف
تاریخِ اسلامی کا ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر
ترمیمحجاج کے ظلم و ستم اور شقاوتِ قلبی کی کہانیوں سے قطع نظر تاریخ ِ اسلامی حجاج بن یوسف کا چہرہ ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھی دکھاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ایک ایساگورنر تھا جو ایک بہترین متنظم و ایڈمنسٹریٹر ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ دینی اور اجتماعی مفاد کے لیے سرگرم رہتا تھا۔ حجاجؒ نے اپنے دورِ گورنری میں کئی معاشرتی اصلاحات کیں جن میں قرآن کریم کی حفاظت کے لئے مناسب اقدامات کرنا، عربی سِکّوں کے اجراء لئے ٹکسال قائم کروانا،سرکاری دیوان یعنی ریکارڈ ز کا فارسی اور دوسری غیر عرب زبانوں سے عربی میں ترجمہ کروانا، زرعی ترقی کے لیے مختلف اقدامات کرنا ،نئے شہروں کی تعمیرکروانااور بحری بیڑوں پر خصوصی توجہ دینا وغیرہ شامل ہیں۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ قرآن کریم سے حجاج کا عشق غیر معمولی تھا۔ تلاوتِ قرآن پاک اسکا روز کا معمول تھا اور وہ ہر رات ایک چوتھائی قرآن تہجد میں تلاوت کیا کرتا تھا۔ ابن الجوزی نے مختصر صفوۃ الصفوۃ میں لکھا ہے کہ ماہِ رمضان میں مغرب اور عشاء کے درمیان تلاوتِ قرآن پاک اسکا معمول تھا۔ قرآن پاک سے اسی غیر معمولی لگاؤ کی وجہ سے اس کی شدید خواہش تھی کہ قرآن مجید اس بات سے بالکل محفوظ ہوجائے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف یا کسی دوسرے لہجے کی آمیزش کا خدشہ باقی رہے۔ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس نے قرآن کریم کا مراجعہ کرنے، اس کے الفاظ پر نقطے لگانے ،حروف پر حرکات (یعنی زبر،زیر، پیش)وضع کرنے اور ان کو الگ الگ کرنے کا حکم دیا۔ اس نے اس طرح کے کئی ایک مصاحف تیار کروائے اور ان کو مختلف ممالک میں بھیجاتاکہ لوگ قرآن مجید کے معاملے میں اختلاف کا شکار نہ ہوں۔ اس سلسلے میں اس نے نصر بن لیثی کو ہدایت کی کہ وہ جدا جدا اور جوڑوں کی شکل میں نقطے وضع کرے اور ان کو مختلف ترتیب سے لفظوں کے اوپر ترتیب دیکر الفاظ کی تشکیل دے۔ ساتھ ہی اس نے قرآن کریم کی مستقل حرکات کی ذمہ داری حسن بصری اور یحیی بن یعمر کے زیر نگرانی ایک کمیٹی بنا کر اس کو سونپ دی(القرطبی ج جلد ۱ صفحہ ۵۴)۔ اس کے علاوہ حجاج بن یوسفؒ نے قراء ، حفاظ اور کاتبوں کو جمع کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ قرآن کریم کے حروف کا شمار کریں اور اس کا نصف ، ثلث، ربع اور سبع کا تعین کریں۔جس پر ان لوگوں نے یہ کام چار ماہ میں مکمل کیا (راجع السجستانی جلد ۱ صفحہ ۱۱۹ ، ۱۲۰ والقرطبی جلد ۱ صفحہ ۵۵،۵۶)۔
اسی طرح دورِ جاہلیت سے لیکر سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت تک بلادِ اسلامیہ میں فارسی اور یونانی کرنسی رائج تھی اور اسی میں لین دین ہوتا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے اپنے زمانے میں اسلامی سکہ سازی کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی اس سے آگے نہ جاسکی کہ فارسی سکوں کو ہو بہو ترتیب دیکر ان پر الحمدللہ اور محمد رسول اللہ وغیرہ لکھوادیا گیا۔ سیدنا عثمانؓ نے بھی اپنے دور میں کچھ دراہم ڈھلوائے جن پر اللہ اکبر نقش ہوتا تھا۔ بعد میں سیدنا امیر معاویہؓ نے کچھ گول دینار ڈھلوائے جن پر سونتی ہوئی تلوار کی تصویر نقش ہوتی تھی۔ اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن زبیر ؓ نے بھی کچھ گول دراہم ڈھلوائے تھے جن کے ایک طرف "محمد رسول اللہ " دوسری طرف "امر اللہ بالوفاء" جبکہ ارد گرد "عبد اللہ" نقش کروایاتھا۔ تاہم ان سب اقدامات کے باوجود اسلامی حکومت مکمل طور پر اسلامی سکوں کا اجراء نہ کرپائی اور بلادِ اسلامیہ میں لین دین کے معاملات بازنطینی اور ساسانی کرنسی میں ہی ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ کا دور آیا جس نے حجاج بن یوسف کے ذریعے سب سے پہلے پوری مملکتِ اسلامیہ میں مکمل طور سے اسلامی کرنسی کا اجراء کیا اور اس کے ذریعے لین دین کو نافذ کیا۔ عبدالملک بن مروانؒ کو یہ مشورہ خالد بن یزید بن معاویہ نے دیا تھا جس کے بعد حجاج بن یوسف کے زیرِ نگرانی عبدالملک نے عراق میں دارالضرب یعنی ٹکسال قائم کیں جہاں اسلامی درہم و دینار ڈھالے گئے جن پر لا الہ الا اللہ لکھا ہوتا تھا۔ خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ نے دمشق میں ہجرت کے چوہترویں سال دینار بنوائے تھے۔ یہ عام الجماعۃ تھا۔ اس برس تمام اسلامی سلطنت پر اموی خلافت قائم ہوگئی تھی۔ عبدالملک ؒ نے حجاج بن یوسف ؒکو خط لکھا کہ وہ بھی عراق میں اس طرز کی کرنسی بنوائے چنانچہ حجاج نے بھی ۷۵ ہجری میں چاندی کے درہم تیار کروائے۔ (البلاذری –فتوح البلدان صفحہ ۴۷۳ وابن خلدون- المقدمہ صفحہ ۱۸۳) مگر اس سال اس نئی کرنسی کو وہ اہمیت حاصل نہ ہوسکی جو ہونی چاہیے تھی البتہ اگلے سال ۷۶ ہجری میں حجاج بن یوسفؒ کے مناسب اقدامات کے نتیجے میں عربی کرنسی کو تمام اطراف میں پزیرائی ملنا شروع ہوگئی۔(البلاذری-فتوح البلدان صفحہ ۴۷۳ وابن الاثیر جلد ۴ صفحہ ۵۳ والطبری جلد ۵ صفحہ ۸۳ والمعارف صفحہ ۱۷۶و الماوردی صفحہ ۱۴۸ وابن خلدون المقدمہ صفحہ ۱۸۳ والماوردی –احکام السلطانیہ صفحہ ۱۳۹)
حجاج بن یوسفؒ نے اس نقرئی کرنسی یعنی دراہم کی سِکّہ ڈھلائی کی ذمہ داری ایک یہودی کو سونپی تھی جس کو سمیر کہہ کر پکارا جاتا تھا لہذا اس کی مناسبت سے اس کرنسی کو سمیری کرنسی کا نام دیا گیا ، حجاج نے اس کرنسی پر (بسم اللہ) کے نیچے اپنا نام (حجاج) نقش کروایا۔ "پھر ایک سال بعد اس پر "قل ھو اللہ احد"نقش کیا گیا۔(ابن الاثیر جلد ۴ صفحہ ۵۳والبلاذری صفحہ ۴۷۳ والمقریزی صفحہ ۸والماوردی صفحہ ۱۳۹)۔ایک روایت کے مطابق عبدا لملک بن مروان نے اس کرنسی پر "قل ھو اللہ احد"نقش کروایاتھا۔ حجاج بن یوسفؒ نے پہلے کوفہ میں اور پھر واسط میں سکہ سازی کا ایک کارخانہ تعمیر کروایااور وہاں پر پیشہ ور ڈھلائی کرنے والے مقرر کیے جو اس کے لیے سونے کے ڈلیوں،چاندی اور تانبے کے کھوٹے سکوں سے کرنسی کی ڈھلائی کیا کرتے تھے ۔ڈھلائی کے اس عمل کو ملاوٹ اور چوری سے محفوظ رکھنے کے لیے نہ صرف یہ کہ کام کرنے والے مزدوروں کی سخت نگرانی کی جاتی تھی بلکہ ان کے ہاتھوں پر ایک خاص قسم کی شناختی علامت بھی ثبت کی جاتی تھی(البلاذری-فتوح البلدان صفحہ ۴۷۴) ۔ الغرض حجاج بن یوسف کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اس نے اسلامی ریاست کے والیانِ حکومت میں سب سے پہلے عربی نقدی ڈھالنے کے لئے ٹکسال قائم کی اور اس کے اصول و ضوابط مقرر کئے۔
اسی طرح حجاج بن یوسف وہ پہلا مسلم والی و گورنر تھا جس نے تمام عراق کے سرکاری ریکارڈزاور دیوانوں کا عربی میں ترجمہ کروایا تھا۔ حجاج نے یہ کام اپنے منشی صالح بن عبدالرحمٰن سے کروایا جس کو حجاج کی خدمت میں اس کے ایرانی کاتب زادان بن فروخ نے پیش کیا تھا۔ اہل فارس نے بڑی کوشش کی کہ صالح یہ کام نہ کرے اور اس سلسلے میں صالح کو اس کام سے باز رکھنے کے لئے انہوں نے اسکو ایک لاکھ درہم کی خطیر رقم بھی پیش کی تھی جس کو صالح نے ٹھکرادیا تھا (البلاذری – فتوح البلدان صفحہ ۳۰۸ والماوردی – الاحکام السلطانیہ صفحہ ۱۹۳ )۔ یہی وجہ ہوئی کہ زادان کی موت کے بعد جب حجاج کے حکم پر صالح نے یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچایا تو زادان کے بیٹے مرادانشاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صالح سے کہا کہ تم نے اور حجاج نے مل کر فارسی زبان کی جڑ کاٹ دی۔ اللہ تم دونوں کی جڑ کاٹ دے۔ سرکاری دفاتر (دواوین) کی عربی منتقلی نے سیاسی اور ادبی پہلوؤں سے دوہرے اثرات مرتب کئے۔ دفتری زبان عربی ہونے سے جہاں ذمیوں اور عجمیوں کا معاشرتی اثر و رسوخ کم ہوا اور ان کے زیرِ انتظام عہدے عربوں کو مل گئے وہیں عرب کاتبوں اور مصنفین کی ایک معتدبہ تعداد بھی ظہور میں آئی۔ اس سلسلے میں بیشتر فارسی اصطلاحات کو عربی شکل دی گئی۔ یہ ایک اہم معاشرتی بنیاد تھی جس پر اسلامی ملکوں میں عرب قومیت کی عمارت استوار ہوئی۔ یوں عجمیت کے آخری مظہر کا بھی خاتمہ ہوگیا اور اسلامی ریاست تمام پہلوؤں سے عربی ہوگئی اور اس کے تمام غیر عرب باشندے بھی رفتہ رفتہ عربی بولنے لگے۔
اسی طرح حجاج نے زراعت کے شعبے میں بھی کئی زبردست اقدامات کئے۔ عراق میں کثیر اراضی بنجر و بیکار پڑی تھی۔ ایسی زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کی طرف حجاج نے خصوصی توجہ دی ۔ اس نے پورے عراق میں جگہ جگہ نہریں اور کنویں کھدوائے اوردلدلوں اور جوہڑوں کو خشک کرکے قابل ِ کاشت بنایا۔ چونکہ عراق میں بنجر زمینیں بہت زیادہ تھیں اور لوگ عموماً ان زمینوں پر کام کرنے کو تیار نہ ہوتے تھے سو لوگوں کو آمادہ کرنے کے لئے حجاج نے اعلانِ عام کروادیا کہ جو ان بنجر اور ناقابلِ کاشت زمینوں کو پیداوار کے قابل بنائے گا وہ ان قطعات کا مالک قرار دیدیا جائے گا۔ یوں زمین کے حصول کی خواہش میں لوگ بنجر زمینوں پر محنت کرکے ان کو قابلِ کاشت بناتے جبکہ اس ضمن میں نہروں اور کنوؤں کی کھدائی کے ذریعے حجاج ان کو ہر ممکن تعاون فراہم کرتا۔ اور یوں آخر میں عراق کا بنجر علاقہ دولتِ امویہ کا بہترین پیداواری علاقہ بن گیا جس سے اچھا خاصہ موٹا خراج ہر سال حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا۔ یوں اپنے حسنِ انتظام سے حجاج نے عراق جیسے بنجر علاقے کو ہرا بھرا بنا ڈالا تھا۔
حجاج بن یوسف ثقفیؒ کی دوراندیشی کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ بلادِ عراق میں گائے کی نسل میں واضح کمی ہوتی جارہی ہے جس کی بناء پر ان کے دودھ اور گوشت کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہونے کے امکانات ہوسکتے ہیں تو اس نے لوگوں کو ہفتے میں چند مخصوص دنوں کے دوران گائے ذبح کرنے سے منع کردیا ۔ مختلف بلاد میں گائے کے ذبح کرنے پر پابندی کی اصل وجہ ان کی نسل کی حفاظت تھی۔ جدید تمدنی ذرائع کی روشنی میں حجاج کے اس اقدام کا جائزہ لیا جائے تو آدمی حجاج کی خداداد صلاحیتیوں کو دیکھ کر حیرت میں پڑجاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مویشی کی افزائشِ نسل اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ اور گوشت کی بڑھوتری اور کاشتکاری میں استعمال کے لئے ان کے ذبح پر پابندی جدید دور کا ایک کارگر حربہ ہے۔ جبکہ جدید دور کے یہ کارگر حربے حجاج سینکڑوں سال پہلے دریافت کرکے استعمال میں لے آیا تھا۔
الغرض اپنی ان معاشرتی اصلاحات کے باعث حجاج بن یوسف سلطنتِ اسلامیہ کا ایک ایسا نمایاں والی تھا جو وہ نہ صرف ایک مصلح تھا بلکہ اس سلسلے میں وہ ایک مجدد کی حیثیت رکھتا تھا جس نے ملک میں ایسی اصلاحات جاری کیں جو اس سے پہلے جاری نہیں کی گئی تھیں۔ گویا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اصلاحات کی تنفیذ کے ضمن میں حجاج کی ڈکشنری میں "ناممکن" کا لفظ تھا ہی نہیں۔
تحریر: محمد فھد حارث --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 12:50، 11 مارچ 2020ء (م ع و)
درستی
ترمیمیہ معلومات بالکل درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس لئے اسے کسی تحقیق کےلئے استعمال نہ کیا جائے۔ حجاج نے مکہ اور مدینہ پر حملے میں حجاج بن یوسف نہیں بلکہ مسلم بن عقبہ کو سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا تھا۔
ایک غلطی کی نشاندہی
ترمیم--92.193.31.45 04:33, 14 نومبر 2012 (UTC)پیرا گراف اول غور سے پڑھئے
پیدائش: 40ھ انتقال: 96ھ
اس نے 173ھ میں مکہ کا محاصرہ کیا جو سات ماہ تک جاری رہا اور کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے۔
جب 96 ھجری میں حجاج کا انتقال ہوا تو 173 ھجری میں اس کے فرشتوں نے مکے کا محاصرہ کیا؟ تحقیق کر کے درست کیا جائے کے مکے کا معاصرہ کب ہوا تھا یا کس نے کیا تھا۔
رضوان خان 92.193.31.45 04:33, 14 نومبر 2012 (UTC)