حجاج بن یوسف
ایک مدیر کی رائے میں یہ کچھ نقطہ ہائے نظر سے غیر متوازن ہے ۔
براہِ کرم نظر انداز کردہ نقطہ نظر پر معلومات کا اضافہ کر کے مضمون کو بہتر بنائیں یا مضمون کے تبادلہ خیال صفحہ پر رائے دیں۔ |
ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل ثقفی۔ طائف میں پیدا ہوا وہیں اس کی پرورش ہوئی، حجاج بن یوسف طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی۔ جو ایک مدرس تھا۔ حجاج بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں پر حکومت کرنے کا عادی تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے اپنے باپ کے ساتھ ہی تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن وہ اس پیشے پر قطعی مطمئن نہ تھا اور کسی نہ کسی طرح حکمران بننے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ بالاخر وہ طائف چھوڑ کر دمشق پہنچا اور کسی نہ کسی طرح عبدالملک بن مروان کے وزیر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وزیر نے جلدی ہی اس کی انتظامی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اسے ترقی دے کر اپنی جاگیر کا منتظم مقرر کر دیا۔ ایک چیز جس کی وزیر کو ہمیشہ شکایت رہتی تھی اس کی سخت گیری تھی لیکن اس سخت گیری کی وجہ سے وزیر کی جاگیر کا انتظام بہتر ہو گیا تھا۔
حجاج بن یوسف | |
---|---|
(عربی میں: الحجاج بن يوسف الثقفي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جون 661ء طائف |
وفات | 1 جون 714ء (53 سال) واسط |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | سلطنت امویہ |
زوجہ | ہند بنت نعمان بن بشیر |
والد | یوسف بن حکم ثقفی |
بہن/بھائی | |
مناصب | |
گورنر | |
برسر عہدہ 685 – 714 |
|
در | واسط |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
اتفاق سے عبد الملک کو اپنی فوج سے سستی اور کاہلی کی شکایت پیدا ہو گئی اور اس نے ایک محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر نے حجاج کا نام پیش کیا لیکن یہ وضاحت کر دی کہ آدمی سخت گیر ہے اس لیے وہ اس کے افعال کے لیے جواب دہ نہیں ہوگا۔ اس طرح حجاج عبد الملک کی فوج میں شامل ہو گیا۔ اس حیثیت سے اس نے عبد الملک کی خوب خدمت کی اور اموی فوج اس سے دہشت کھانے لگی۔ یہاں تک کہ خود وزیر کا دستہ بھی اس کی سخت گیری کا شکار ہوا۔ حالانکہ وہ خود کئی سال انھیں میں شامل رہا تھا۔ عبد الملک نے جب عراق پر حملہ کیا تو مصعب بن زبیر کے خلاف اس کے سخت اقدامات نے عبد الملک کو قائل کر دیا کہ حجاج اس کے کہنے پر کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے۔ اور اس کے لیے اخلاقی و مذہبی حدود عبور کرنا کوئی مشکل نہیں۔
مکہ پر حملہ
ترمیمعبداللہ بن زیبر اس وقت مکہ میں پناہ گزین تھے اور عبد الملک کو ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جوعبداللہ بن زبیر کا خاتمہ کر سکے۔ چنانچہ حجاج کو اس مہم کا ذمے دار بنایا گیا۔ اس نے مکہ کی ناکہ بنی کرکے غذائی بحران پیدا کر دیا اور سنگباری کی۔ جب شامی خانہ کعبہ کی حرمت یا عبد اللہ بن زبیر کی اخلاقی درخواستوں کی وجہ سے ہچکچاتے تو حجاج خود سنگباری کرتا تھا۔ اس مہم میں اس نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرکے عبد اللہ بن زبیر کو شہید کر ڈالا۔ اور ان کی لاش کو کئی روز تک پھانسی پر لٹکائے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے حجاز کا ولی مقرر کر دیا گیا۔
حجاز کی گورنری
ترمیمحجاج بن یوسف کو گورنر حجاز اس لیے بنایا گیا تھا کہ وہ اموی اقتدار کو اس مقدس سرزمین میں مستحکم کر ڈالے چنانچہ کچھ دیر تک مکہ میں مقیم رہا۔ اس نے ہر اس شخص کو قتل کروا ڈالا جس سے اموی اقتدار کے خلاف زبان کھولنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ اس کے مظالم نے عوام کے حوصلے پست کر دیے اور وہ اموی غلامی پر رضامند ہو گئے۔
مکہ کے بعد مدینہ کی باری آئی۔ حجاج وہاں پہنچا تو صحابہ زادوں اور تابعین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اس نے اہل مدینہ کو جمع کرکے ایک زوردار تقریر کی اور انھیں عبد الملک کی بیعت کرنے پر آمادہ کرنا چاہا تاہم اہل مدینہ خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے مخالفت بھی نہ کی لیکن بیعت بھی کسی نے نہ کی۔ حجاج نے انھیں تین دن کی مہلت دے کر رخصت کر دیا لیکن ساتھ ہی قتل و غارت کا مشغلہ شروع کر دیا لوگ اس کے جور ستم کے واقعات سن چکے تھے اور واقعہ حرہ انھیں ابھی بھولا نہیں تھا اس لیے انھوں نے عبد الملک کی بیعت کر لی۔ حجاج نے معززین کی ایک فہرست تیار کر ڈالی اور ان سب کو یکے بعد دیگرے طلب کرکے بیعت لی جس نے اموی حکومت پر تنقید کی اس کی گردن اڑا دی۔ دو ماہ تک اس کی بربریت کے بھرپور مظاہرے ہوتے رہے۔ بالاخر اس مقدس بستی کے باشندوں سے قیامت ٹل گئی اور حجاج کا تبادلہ عراق کر دیا گیا۔
حجاج عراق میں
ترمیمعبد الملک نے اہل خراسان اور کوفہ و بصرہ کی باغیانہ روش کو ختم کرنے کے لیے حجاج کو گورنر مقرر کیا۔ اس نے صرف بارہ آدمی ساتھ لیے اور ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے بالکل غیر متوقع طور پر کوفہ پہنچا۔ کوفہ میں داخلہ کے وقت اس نے نقاب پہن رکھی تھی تاکہ لوگ اسے پہچان نہ سکیں۔ اس کے ساتھی اہل کوفہ کو پکار پکار کر مسجد میں جمع ہونے کا حکم دے رہے تھے۔ حجاج بن یوسف ثقفی مسجد پہنچا تو لوگ شرارت پر آمادہ تھے۔ کنکریاں ہمراہ لائے تھے تاکہ ان سے نئے گورنر کا استقبال کر سکیں۔ اس نے ممبر پر چڑھ کر نقاب الٹی اور تقرر اس طرح شروع کی:
” | لوگو سنو اور ہوش و حواس درست کرکے سنو! تمھاری شورش پسندی اور شرارتوں سے تنگ آکر امیرالمومنین نے اس بات اپنے ترکش کا سب سے سخت تیر تم پر چلایا ہے۔ تم منافق ، مفسد اور باغی ہو ، تم نت نئی شرارتیں کرتے اور ہر آنے والے حاکم سے بغاوت کرنے کے عادی ہو۔ سیدھے ہو جاؤ اور اطاعت کے لیے سر جھکا دو ورنہ تمھیں ایسا ذلیل و خوار کروں گا کہ تمھاری آئندہ نسلیں تم پر لعنت بھیجا کریں گی۔ میں تمھاری گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ بلکہ تمھارے ٹیڑھے پن کو ایسا درست کروں گا کہ تم سدھی ہوئی انٹنیوں کی طرح دودھ دینے لگو گے۔ جس طرح ایک بڑھئی ان گڑھ لکڑی کو چھیل کر اپنے حسب منشا بنا لیتا ہے اسی طرح میں بھی تمھیں چھیل کر اپنی مرضی کے مطابق کام لوں گا۔ میرا غصہ بہت تیز اور میرا انتقام بہت ہولناک ہے۔ تم سیدھی طرح راہ پر آ جاؤ ورنہ خدا کی قسم میں تمھاری کھال کھچوا کر اس میں بھس بھرواؤں گا۔ تلواروں اور نیزوں کے اتنے چرکے لگاؤں گا کہ تمھاری رگ رگ سے خون کے فوارے چھوٹیں گے اور تمھاری بوٹیاں کرکے جنگل میں پھنکوا دوں گا کہ کتے اور کوے کھائیں۔
میں نے سنا ہے کہ تم میں سے اکثر مہلب کا ساتھ چھوڑ کر لوٹ آئے ہیں کہ وہ امیر المومنین کے دشمنوں کی تلواروں کا لقمہ بن جائے اور تم بیوی بچوں میں بیتھے مزے کرو۔ سن لو! میں امیر المومنین کے سر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو لوگ مہلب کا ساتھ چھوڑ کر آئے ہیں وہ دو تین دن کے اندر اندر واپس چلے جائیں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ، میں تمھاری بیویوں کے سہاگ لوٹ لوں گا اور تمھارے بچوں کو یتیم بنا دوں گا کہ در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ میں دیکھتا ہوں نظریں اٹھی ہوئی ہیں۔ گردنیں اونچی ہو رہی ہیں۔ سروں کی فصل پک چکی ہے اور کٹائی کا وقت آ گیا ہے میری نظر وہ خون دیکھ رہی ہے جو پگڑیوں اور داڑھیوں کے درمیان بہہ رہا ہے۔ |
“ |
اس تقریر سے لوگ بری طرح مرعوب ہوئے۔ اس نے عبد الملک کا خط پڑھنے کا حکم دیا۔ جس میں اس کی تقریر کا حکم تھا خط کا آغاز السلام علیکم سے ہوتا تھا لوگ سہمے ہوئے خط سن رہے تھے لیکن حجاج سخت غصے کے عالم میں چیخا ’’کمینوں امیر المومنین تم پر سلام بھیجتے ہیں اور تم میں سے کوئی جواب تک نہیں دیتا۔ اس پر سب لوگوں نے بیک وقت سلام کا جواب دیا اور خط کو نہایت غور سے سنا
حجاج نے کوفہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ جو لوگ مہلب بن ابی صفرہ کی فوج سے بھاگ کر کوفہ آئے ہیں وہ فوراً واپس چلے جائیں ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ اہل کوفہ اس حد تک فرماں بردار ہو گئے تھے کہ انھوں نے اس حکم کی فوراً تعمیل کی۔
بصرہ کی بغاوت
ترمیمحجاج کوفہ سے بصرہ پہنچا اور وہاں کے لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے بھی ایک زبردست تقریر کی اور فوج کی تنخواہوں میں کمی کر ڈالی۔ عبد الله بن جارود ایک سردار نے اس حکم کے خلاف اپیل کی تو اس نے اسے جھاڑ دیا اس پر فوج میں بغاوت ہو گئی اور فوجیوں نے حجاج کے خیمہ کو گھیر لیا لیکن حجاج نے رشوت دے کر بہت سے لوگوں کو ساتھ ملا لیا اور اس طرح بغاوت فرو ہو گئی اور اس کے قائد قتل کر ڈالے گئے۔ اہل عراق اس بغاوت کی ناکامی سے بہت مرعوب ہوئے۔ حجاج نے حضرت انس بن مالک مشہور صحابی کی شان میں بھی گستاخی کی اور ان کے لڑکے کو قتل کروا دیا تاہم عبد الملک نے اس پر سخت گرفت کی اور حجاج کو انس سے معافی مانگنی پڑی۔
خوارج کا استیصال
ترمیمعراق پر کنٹرول کرنے کی وجہ سے عبد الملک نے حجاج کو پورے مشرقی مقبوضات کا گورنر بنا ڈالا۔ اس حیثیت سے اس نے خوارج کے خلاف موثر کارروائی کی۔ بحرین عمان اور ہرمز کے خوارج ختم کر دیے گئے۔ البتہ شبیب خارجی کی بغاوت کو دبانا ایک مسئلہ بن گیا کیونکہ اس نے بنو امیہ کے مظالم کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا رکھا تھا اور اسے بعض نہایت مخلص بااثر لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے محمد بن مروان کو شکست دی۔ حجاج کے بھیجے ہوئے چار لشکر یکے بعد دیگرے اس سے شکت کھا گئے۔ بالآخر حجاج نے کوفہ سے ایک عظیم لشکر عباب بن ورقا کی قیادت میں بھیجا لیکن شبیب نے صرف ایک ہزار سواروں کی مدد سے اسے شکست دے کر کوفہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ حجاج خود مقابلے پر آیا اور ایک شدید معرکے کے بعد شبیب کو شکست ہوئی اور وہ دریا عبور کرتا ہوا ڈوب گیا۔
ابن اشعث کی بغاوت
ترمیمحجاج کے ظالمانہ رویہ کے خلاف سب سے بڑی بغاوت اموی سالار عبدالرحمٰن ابن اشعث نے کی۔ وہ ترکستان کے محاذ پر زنبیل کے خلاف بر سر پیکار تھا۔ اس نے مفتوحہ علاقہ کا انتظام درست کرنے کے لیے تھوڑی دیر تک جنگ و جدل ملتوی کیا تو حجاج نے اسے ایک نہایت سخت خط لکھا اس پر وہ اور اس کی فوج بغاوت کرنے پر آمادہ ہو گئی اور انھوں نے زنبیل سے صلح کر لی اور عراق واپس لوٹ کر بصرہ پر قبضہ کر لیا۔ حجاج نے شامی فوجوں کی مدد سے ان کا مقابلہ کیا تو شکست کھائی اور صورت حال تھوڑی دیر تک اموی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ حجاج نے مہلب بن ابی صفرہ کی مدد سے پھر مقابلہ کیا اور ابن اشعث کو شکست دی لیکن اس نے لوٹ کر کوفہ پر قبضہ کر لیا۔
عبد الملک نے خود مداخلت کی اور ابن اشعث اور اہل کوفہ کو حجاج کی معزولی کی پیش کش کی لیکن کوئی سرداروں نے ابن اشعث کو صلح کی یہ معقول صورت قبول نہ کرنے دی اور عبد الملک خود میدان میں نکل آیا حجاج اور عبد الملک کی متحدہ فوجوں نے کوفی لشکر کو شکست دی اور ابن اشعث کو زنبیل کے پاس پناہ لینی پڑی۔ حجاج نے زنبیل کو لکھا کہ اگر تم ابن اشعث کا سر کاٹ کر بھیج دو تو دس سال کا خراج معاف کر دیا جائے گا۔ زنبیل نے حجاج کی اس پیش کش کو مان لیا اور ابن اشعث کو قتل کر ڈالا۔
حضرت علی کو گالیاں
ترمیمتہذیب التہذیب میں آیا ہے کہ: "حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن عوف کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں"۔[1]۔
حجاج کی فتوحات
ترمیمحجاج نے ولید بن عبد الملک کے عہد میں فتوحات پر زیادہ زور دیا اور سندھ اور ترکستان میں بے شمار فتوحات کیں۔ اس نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور یوں ہندوستان میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہوئی
اصلاحات
ترمیمحجاج نے بعض دوسرے قابل ذکر کارناموں میں اس کی اصلاحات شامل ہیں اس نے آبپاشی کے بعض منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا۔ ب
نومسلموں پر جزیہ
ترمیمحجاج کا ایک اور کام نومسلموں پر جزیہ کا نفاذ ہے۔ چونکہ لوگ تیزی سے مشرف با اسلام ہو رہے تھے حجاج کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اس طرح لوگ مسلمان ہوتے رہے تو حکومت کی آمدن کم ہو جائے گی چنانچہ اس نے نو مسلموں پر جزیہ لگا دیا اس سے مفتوحہ قوموں میں شدید رد عمل پیدا ہوا۔
حجاج بطور منتظم
ترمیمحجاج بن یوسف بہت باصلاحیت انسان تھا۔ وہ حکومت کے استحکام کے لیے ہر کام کرنے کو تیار رہتا۔ اموی حکومت کے استحکام میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس نے اخلاقی و مذہبی احکام کو ہمیشہ خلیفہ کی خوشنودی کے لیے قربان کیا اور حجاز و عراق پر مضبوط اموی کنٹرول قائم کر دیا۔ معاشی استحکام کے لیے اس نے معاشی اصلاحات نافذ کیں اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا۔ اس کا مزاج فاتحانہ تھا اس لیے اس کے عہد میں فتوحات بھی حاصل ہوئیں۔ لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ کہ وہ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا۔ جا و بے جا تلوار استعمال کرتا۔ انسان جان کی حرمت اس کے نزدیک کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔ حرم کا احترام اس نے بے دریغ اٹھایا۔ حرام مہینوں کا احترام بھی وہ کم ہی کرتا تھا۔ عراقیوں اور عجمی مسلمانوں سے اس کا سلوک نہایت ظالمانہ تھا۔ وہ سخت متعصب تھا اور شمالی عدنانی قبائل کا سرپرست تھا۔ اس نے یمنیوں کو بلاوجہ ظلم کا نشانہ بنایا اور اس طرح سے اس کے ظلم و جور اور قبائلی تعصب پر بنو امیہ کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ اور عوام الناس کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت کا بیج بویا گیا جو اموی سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔
القصہ حجاج نے اپنی تلوار اور تقریری قوت بنو امیہ کے استحکام کے لیے استعمال کی جس سے وقتی طور پر اموی حکومت مستحکم ہو گئی لیکن اس کی غلط کاریوں نے عوام کو اموی حکومت سے برگشتہ کر دیا۔
حجاج اور مخالفین
ترمیمحجاج نے اپنے اور حکومت کے مخالفین پہ بے جا ظلم ڈھائے۔ اس کی محبوب سزا مخالف کو برہنہ (ننگا) کر کے بغیر چھت کے قید خانوں میں رکھنا تھی۔ اس معاملے میں وہ مرد اور عورت کی تمیز بھی نہیں رکھتا تھا۔ مزید اذیت کے لیے وہ ایک ہی خاندان کے مرد و خواتین کو ایک ہی جگہ برہنہ قید رکھتا۔ ایک وقت میں اس کے برہنہ قیدیوں کی تعداد 50000 پچاس ہزار تک پہنچ گئی تھی جن میں 30000 خواتیں تھیں۔ ان قیدیوں میں اکثریت حجاج و بنی امیہ کے سیاسی مخالفین کی تھی۔
موت کے وقت یقین
ان حالات کو جانے کے بعد یقیناً ہم اور یہ سوچتے ہوں گے کہ حجاج بن یوسف جیسا انسان کس قدر ظلم کیا
علما کرام فرماتے ہیں اگر ظلم کی بات کی جائے تو آنکھوں کے سامنے حجاج بن یوسف کا نام زندہ ہوجاتا ہے ان تمام باتوں کے سامنے جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ کتنا مضبوط ایمان رہا حجاج بن یوسف کا جب موت کا وقت آیا تو ماں نے کہا بیٹا مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو جہنم میں ڈال دیں گے یہ سن کر حجاج بن یوسف بہت زور زور سے ہنسنے لگا. ماں نے حجاج کی اس ہنسی کو دیکھ کر سوچ کہ کئی جہنم کا نام سن کر پاگل تو نہیں ہو گیا...
تو حجاج بن یوسف نے اپنی والدہ سے کہا کہ اے حجاج کی ماں روز قیامت جب اللہ تم سے کہے کہ اے حجاج کی ماں اگر میں تم کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا حکم دو کہ تم اپنے بیٹے کو کیا سزا دینا چاہوں گی
تو ماں نے مسکرا کر کہا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ اس بات کی اجازت دے کہ تم اس کے اوپر فیصلہ کروں تو میں تم کو جنت میں داخل کرنے کا فیصلہ دو گی
تب حجاج بن یوسف نے کہا ماں تو ایک ہے اتنا جانے کے بعد اگر تم مجھے جنت سے سکتی ہو تو میرا رب ستر ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے
اس سے کوئی چارہ نہیں کہ حجاج بن یوسف ظالم جابر یا با صلاحیت تھا یا امیہ خاندان کو تخفظ دیتا تھا یا نومسلموں سے جزیہ اکھٹا کرتا تھا یا اپنے زیر تسلط لوگوں پر ظلم ڈھاتا تھا۔ پھر بھی بعض لوگ اپنی عقیدت کی بنیاد پر ان حقائق کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس وقت اتنی آبادی نہیں تھی تو 50,000 افراد قیدی کس طرح بنا لیے گئے۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ نبی اکرمؐ کے دور میں 1 لاکھ سے زیادہ افراد مسلمان ہو چکے تھے اور یہ تعداد حجاز کے ایک محدود علاقے سے تھی۔ بنو امیہ کے دور میں جب پورا حجاز, یمن, عمان, بحرین, عراق, شام, اردن, ایران, ہندوستان کے بعض علاقے اور اس کے علاوہ بہت سے علاقے سلطنت اسلامی میں شامل ہو چکے تھے تو اس سلطنت کی آبادی کئی ملین سے تجادز کر چکی تھی۔ مزید یہ کہ نبی اکرمؐ کے بعد 3 یا 4 نسلیں گذر چکی تھیں۔ اس زمانے کے حساب سے کہ ایک شخص کئی کئی شادیاں کرتا تھا اور ہر بیوی سے 10, 12 بچے پیدا کرتا تھا, اگر کم از کم ہرنسل میں آبادی میں 3 یا 4 گنا بھی اضافہ تصور کیا جائے تو ایک کثیر تعداد مسلمانوں کی وجود میں آتی ہے۔
حجاج بن یوسف کی دردناک موت
ترمیمحضرت سعید بن جبیر جو کے ایک تابعی بزرگ تھے ایک دن ممبر پر بیٹھے ھوئے یہ الفاظ ادا کیے کہ "حجاج ایک ظالم شخص ہے"
ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔
کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں؟؟ تو آپ نے فرمایا ہاں, بالکل تو ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ھو گیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔ جب آپ کو قتل کے لیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے۔
حجاج کو ناگوار گذرا اسنے پوچھا کیوں مسکراتے ھو تو آپ نے جواب دیا تیری بے وقوفی پر اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رھا ہے اس پر مسکراتا ھوں۔
حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے زبح کر دو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا:
اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ہے تیری رضا پر راضی ھوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔
جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اس کا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا: یااللہ رخ جدھر بھی ھو تو ھر جگہ موجود ہے۔ مشرق مغرب ھر طرف تیری حکمرانی ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا قتل اس کا آخری ظلم ھو، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔
جب آپ کی زبان سے یہ جملہ ادا ھوا اس کے ساتھ ہی آپکو قتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ھو گیا۔ ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوی خوشی خوشی مسکراتا ھوا اللہ کی رضا پر راضی ھو جاتا ہے۔
حجاج بن یوسف کے نام سے سب واقف ہیں، حجاج کو عبد الملک نے مکہ، مدینہ طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا تھا اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں سے وہ کوفہ میں داخل ہوا، ان علاقوں میں بیس سال تک حجاج کا عمل دخل رہا اس نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں۔
اس کے دور میں مسلمان مجاہدین، چین تک پہنچ گئے تھے، حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے، الله تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا حجاج حافظ قران تھا۔ شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا۔ وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا۔ مگر اس کی تمام اچھائیوں پر اس کی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی کیا تھی ؟ "ظلم "
حجاج بہت ظالم تھا، اسنے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا..ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں،اولیاں اور علما کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا۔ حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں. اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل تھا۔
انھیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر اس کا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے۔۔؟
اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی زمہریری کہا جاتا ہے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اس کی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انھوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔
تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ھوئے تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گی۔ درباری اٹھ کر بھاگ گئے حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ہے علاج تو کر۔۔ حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اللہ سے پناہ مانگ حجاج، جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور انسے دعا کی درخواست کی۔
وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا …آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا۔ وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ حضرت بن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی تھی۔
جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے۔ وہ بولا میں مر جاوں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ھو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہی چھوڑیں گے۔ اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی موت واقع ھوی۔
اللہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ہے تو، فرشتے بھی خشیت الہی سے کانپتے ہیں، عرش ھل جاتا ہے۔
اللہ ظالموں کے ظلم سے ہم سبکو محفوظ رکھے..!!
(دل کی آواز محمد اسامہ عفی عنہ)
- ↑ حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم،226