آخری نبی کی پیشن گوئی تو یہود کے یہاں بھی ملتی تھی اس طرح شاید ان کا بھی ایمان ثابت ہوجاتا ہے۔ کسی کی کوئی پیشن گوئی، حسن سلوک اس صورت میں اس کے ایمان کی دلیل نہیں بن سکتی کہ اس نے آپ کے دعوت اسلام (جو آپ نے 40 سال کی عمر میں دیا) کو قبول نہ کیا ہو.

  • آپ کو آنحضرت کے آباء کی تعریف چبھ گئی۔ دوسری طرف آپ ان لوگوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں جن کے آباء جو تمام زندگی اسلام کی مخالفت کرتے رہے۔ کعب بن لوی نے یہ بتایا تھا کہ وہ انہی کی نسل سے ہوں گے۔ کیا یہود نے بھی یہ بتایا؟ دوسری بات یہ کہ آپ کو اپنا نام لکھنا چاہئیے--اردو دوست 15:44, 7 نومبر 2009 (UTC)
  • مجھ کو تعریف نہیں چبھی حضرت۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کسی کے ایمان یا کفر کا فیصلہ اس وقت کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے جس اس کے سامنے اسلام پیش کیا جا‎ۓ اور وہ اس کو قبول کرے یا نہ کرے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آباء پر تو اسلام پیش ہی نہیں کیا گیا تھا اسلام کی دعوت تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کے 40 ویں سال میں دی جس کے بعد ہی مومن اور کافر کا فرق واضح ہو . یہاں میں پھر واضح کردوں کہ دعوت اسلام سے قبل نہ کسی کو کافر کہا جاۓ نہ مومن . محض کسی خوشخبری یا حسن سلوک کی بنا پر یہ ہمدرد تو کہا جاسکتا ہے لیکن کسی کس لۓ کلم کا اقرار یا انکار کۓ بنا کۓ بنا اس کے کافر یا مومن ہونے کا دعوی کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آبا کی تعریف کسی مسلمان کو تو نہیں چبھ سکتی مگر رسول للہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مصاحبین اور امہات المومنین کی تعریف ایک جہنمی گروپ کو کبھی ہضم نہیں ہوتی . دوسرا موضوع وہیں تک محدود رکھیں اس تبادلہ خیال پر اس سے متعلق بحث سے فضول ہے. یہود آخری پیغبر کی پیشن گوئی کرتے تھے مگر ان کا خیال تھا کہ آخری نبی آل اسحق میں سے ہوگا. نام سے سوا‎‎ۓ شراکت پر کلک سے نۓ آنے والوں کو مرعوب کرنے کے سوا کیا ہوتا ہےان سے اردو کی کوئی خدمت نہیں ہوتی . خالی نام رکھنے سے کوئی دوست نہیں ہوجاتا نام کی لاج بھی رکھنی چاہے یہ نہ ہو کہ آنکھوں سے اندھے نام نین سکھ ". مجھے اب وکی پر نام کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ میرے" مہربان" میرا اندازہ لگا لیتے ہیں.
  • اسلام تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی پہلے موجود تھا یعنی دینِ حق۔ ان کے آباء دین ابراہیم پر تھے اور بت پرستی نہیں کرتے تھے۔ ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔ دین ہمیشہ سے اسلام ہے اور اگر ان کے کفر و شرک کی کوئی دلیل نہیں تو وہ مسلمان ہی تھے۔ خدا نے بنو ھاشم کو اور ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایسے ہی نہیں چنا۔ ان کے نسب کو پاک ہی رکھا گیا۔ دوسری طرف ان پر میں ایسے لوگوں کو فوقیت نہیں دے سکتا جن کی ہر جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف شرکت رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مصاحبین اور اہل بیت کی تو ہم پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں۔ ان کا جو بھی دشمن ہو، ان کے خلاف جنگیں لڑتا ہو، ان کے خلاف سازشیں کرتا رہے وہ ان کا دوست نہیں ہو سکتا اور جہنمی ہے چاہے وہ بظاہر اسلام ہی کیون نہ لے آیا ہو۔ یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ کعب بن لوی مسلمان تھے۔ جو اس کے خلاف بات کرے وہ اپنا نکتہ ثابت کرے۔--اردو دوست 17:35, 7 نومبر 2009 (UTC)

کعب بن لوی ترمیم

کعب بن لوی اپنے آباء و اجداد کی سیرتِ طیبہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دین ابراہیمی کے علمبردار تھے اور دین ابراہیمی کے محافظ و مددگار تھے اور انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے تھے Saghar Zaidi (تبادلۂ خیالشراکتیں) 07:34، 24 جنوری 2022ء (م ع و)

واپس "کعب بن لوی" پر