مفتی قاضی عبدالرحیم بستوی علیہ رحمہ

ترمیم

علامہ قاضی عبدالرحیم بستوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خلاصہ: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بے شمار دینی خدمات ہیں شروع میں آپ درس وتدریس سے متعلق رہے بعد ازاں بریلی شریف کے مرکزی دارالافتاء میں فتویٰ نویسی ،اصلاحِ فتاویٰ،تصحیحِ نقول اور مفتیانِ کرام کی تربیت کے فرائض انجام دہی کے ساتھ ساتھ امامت وخطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے، نیز آپ کے تحریرشدہ فتاویٰ کے ۱۵۰ ضخیم رجسٹرڈ موجود ہیں۔ تاریخِ ولادت باسعادت ومقامِ ولادت: عالمِ اسلام اور ہند کے مشہور و معروف ممتازعالم دین استاذ الفقہاء، عمدةُ المحقیقین حضرت علامہ الحاج قاضی مفتی عبد الرحیم بستوی علیہ الرحمة القوی یکم جولائی ۱۹۳۵ء کو جبجوا پوسٹ ہلوڑ، ڈومریا گنج ضلع بستی (موجودہ سدھارتھ نگر) یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ (ماہنامہ معارفِ رضا کراچی ،اکتوبر۲۰۱۰،ص۵۱) سلسلۂ نسب: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا سلسلۂ نسب حضرت علامہ قاضی عبد الرحیم بستوی بن قاضی محمد ذکی الرحمن بن قاضی شاہ احمد اللہ صاحب بن قاضی محمد بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم سے ہوتا ہوا عاشقِ اکبر، خلیفۂ اوّل امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ (ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، اکتوبر ۲۰۱۰، ص ۵۱) سلسلۂ بیعت وخلافت: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۱۶ربیع الاول ۱۳۸۶ھ کو قاضی ملت نے حضور مفتی اعظم ہند کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ ۲۲رجب المرجب ۱۳۸۶ھ کو مفتیٔ اعظم ہند نے آپ کو خلافت واجازت عطا فرمائی اور جملہ احادیثِ کتب، کتبِ فقہِ حنفی، افتاء، جملہ مشاغلِ رضویت وقادریت اور سبھی اوراد ووظائف کی اجازت بھی مرحمت فرمائی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قبلہ مفتی اعظم ہند سے پہلے اپنے خاندانی سلسلۂ طریقت نقشبندیہ فضلِ رحمانیہ میں بھی اجازت حاصل تھی۔(ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، اکتوبر ۲۰۱۰، ص۵۱) خلفاء: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلفاء میں چند کے نام یہ ہیں: 1: مفتی محمد ناظم علی بارہ بنکوی 2: مفتی محمد مظفر حسین قادری کٹیہاری 3: مفتی عبد الرحیم نشتر فاروقی چھپروی 4: مفتی محمد احسن رضوی مظفر پوری 5: مفتی محمد یونس رضا اویسی گریڈ یہی جھاڑ کھنڈی 6: مفتی محمد الطاف حسین رضوی چشتی خانقاہِ سبحانیہ، شیخن پورہ، لکھیم پور کھیری، یوپی۔

7: صاحبزادہ قاضئ ملت مولانا قاضی رضاء الرحمن قادری سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ فضل رحمانیہ درگاہ شریف جبجوا 

تعلیم وتربیت: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دیندار، علم دوست والدین نے آپ کی بنیادی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی، ۱۹۵۰ء میں آپ نے ضلع گونڈہ (موجودہ ضلع بلرامپور) کی معروف درس گاہ دارالعلوم فضلِ رحمانیہ پچپڑوا میں درس نظامی (عالم کورس) میں داخلہ لیا پھرپانچ سال کی تعلیم مکمل کرنے بعد بریلی شریف آگئے،بعد ازاں ضلع میرٹھ کی دانش گاہ اسلامی عربی اندر کوٹ میں داخلہ لیا۔جس میں امامِ نحو صدرالعلماء حضرت علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیرِ نگرانی درسِ نطامی کی تکمیل کی اور عربی فارسی الہٰ آباد بورڈ کی تعلیمی اسناد عالم، کامل اور فاضل بھی یہیں رہ کر حاصل کیں۔ (ماہنامہ معارفِ رضا کراچی ،اکتوبر۲۰۱۰،ص ۱ ۵ ) اساتذۂ کرام: آپ کے اساتذۂ کرام میں: [1]: مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا قادری نوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [2]: صدر العلماء علامہ غلام جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [3]:حضرت علامہ محمد ریحان رضا خان رحمانی میاں بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [4]: نائب مفتیٔ اعظم مفتی محمد شریف الحق امجدی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [5]: علامہ قاری رضاء المصطفی امجدی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [6]: حضرت علامہ سید محمد جلیل ہاپڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [7]: علامہ سید محمد افضل حسین مونگیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [8]: علامہ محمد اختر رضوی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دینی خدمات: آپ کی بے شمار دینی خدمات ہیں شروع میں آپ درس وتدریس سے متعلق رہے بعد ازاں بریلی شریف کے مرکزی دارالافتاء میں فتوی نویسی ،اصلاحِ فتاوی،تصحیحِ نقول اور مفتیانِ کرام کی تربیت کے فرائض انجام دہی کے ساتھ ساتھ امامت وخطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے، نیز آپ کے تحریرشدہ فتاوی کے ۱۵۰ ضخیم رجسٹرڈ موجود ہیں۔(ماہنامہ معارفِ رضا کراچی ،اکتوبر۲۰۱۰،ص۶) تصانیف: مجموعہ اعمال رضا ، فضائل درود و سلام اور آپ کی تصانیف میں سے اہم ترین یہ ہے کہ آپ نے ردالمحتار پر پانچ جلدوں پر مشتمل اعلیٰ حضرت کے حاشیہ جدالممتار کو نقل فرمایا ہے اورضائع ہونے سے محفوظ کر لیا ہے،نیز عالمگیری (کتاب الطلاق) مجموعۂ فوائدِ کتبِ فقہ وحدیث،حاشیہ فتح الباری،حاشیہ صحیح البخاری،حاشیہ عمدۃ القاری،حاشیہ ملا جلال ،حاشیہ مواہبِ لدنیہ کے علاوہ کئی دیگر کتب کے حواشی اور مختصر رسائل کو بھی خردبرد ہونے سے محفوظ کر لیا ہے اور مسامدۂ مسائرہ بھی انہیں میں شامل ہے ۔اس کے علاوہ دینی کتابوں کی اشاعت اور تشہیر وترویج کے لئے بریلی شریف میں قادری بک ڈپو بھی قائم فرمایا جس کے زیرِ اہتمام اعلی حضرت کے ۷۰ سے زائد رسائل شائع کرکے خواص وعوام کو رضوی خدمات سے رو شناس کرایا۔یقینا قاضی صاحب کا اہلِ سنت پر یہ عظیم احسا ن ہے۔ (ماہنامہ معارفِ رضا کراچی،اکتوبر۲۰۱۰،ص۵۲) عقدِ مسنون اور اولاد: ۳ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عقدِ مسنون ہوا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پانچ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں ہیں اور اللہ عزوجل کے فضل سبھی با حیات ہیں: [1]:محمد ریاض الرحمن صاحب [2]: مولانا محمد رضا ءالرحمن صاحب [3]: غلام مرتضیٰ صاحب [4]: ماسٹرغلام مجتبیٰ صاحب [5]: محمد محبوب الرحمن صاحب وفات: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاوصال ظاہری۴رمضان المبارک۱۴۳۱ھ مطابق ۱۵،اگست۲۰۱۰ءکو ہوا۔ (ماہنامہ معارفِ رضا کراچی ،اکتوبر۲۰۱۰،ص۶) نماز جنازہ: آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ میں آپ کے خلفاء، مریدین، معتقدین، تلامذہ کے علاوہ علمائے اہلسنت و عوام اہلسنت کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جنازے کی امامت صاحبزادہ تاج الشریعہ مفتی عسجد رضا خاں قادری مدظلہ العالی نے فرمائی: تدفین: آپ رحمۃ اللہ علیہ کے آبائی وطن موضع جبجوا میں خاندان کے دیگر بزرگان دین کے پہلو میں تدفین عمل لائی گئی۔

ابر رحمت ان کی مرقد پہ گہر باری کرے

حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے Mtsrazvi2002 (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:38، 19 جولائی 2024ء (م ع و)