who are you? and what are you doing on wikipedia

بلتستان علماء يوگو ترمیم

(1)مفتی اعظم مولانا عبد القادر مرحوم

یوگو کی اہم شخصیات کی ابتداء ھم مولانا عبدالقادر مرحوم سے کرتے ہیں ک جس کی دعوت و تبلیغ اور اعلی اخلاق اور حکمت عملی سے موضع یوگو کے سالم آبادی اہلحدیث ہوگئی۔

مولانا عبد القادر مرحوم علاقہ خپلو کے موضع یوگو میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم غواڑی سے حاصل کی، آپ کے دل میں مزید حصول علم کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اس لئے ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا اور دہلی پہنچ کر میاں نذیر حسین کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ اسکے بعد آپ وطن مالوف واپس تشریف لائے۔

مفتی کریم بخش مرحوم کی وفات کے بعد شیخ الحدیث اور افتاء وقضاء کی ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر پڑیں۔ آپ نے نہایت خوش اسلوبی اور حکمت عملی سے دونوں منصبوں کو سنبھالا۔

آپ کی علمی قابلیت اور افتاء و قضاء میں پختگی دیکھ کر علاقے کے حکام اور مقامی عدالت آپ سے فیصلہ کراتے اور اسے حرف آخر تصور کرتے۔ گویا آپ مفتی دیار بلتستان تھے 

جو "مفتی اعظم" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ موجودہ دور کے اکثر علماء آپ کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔

آپ کے اعلی اخلاق اور حکمت عملی سے موضع یوگو کے سالم آبادی اہلحدیث ہوگئی۔ اور اکھٹے جمعہ پڑھنے لگے۔ اس سے پہلے دو الگ الگ مسجدوں میں نماز جمعہ ادا ہوتی تھی۔ جو آپ کے مواعظ حسنہ اور علم و حکمت کی پختگی کا ثبوت ہے۔ آپ ایک نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ غواڑی اور یوگو کے لوگ اب بھی آپ کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں۔

آپ ہر علاقے میں نہایت ہی مقبول اور مشہور تھے۔

آپ کی وفات آخر مارچ 1993ء میں ہوئی۔ آپ کے وارثان میں دو بیٹے اور دو بیٹیان ہیں۔

بڑا صاحبزادہ ڈاکٹر حمیداللہ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی لاہور ہے۔ آپ بلتستان کے نامور فرزند ہیں جس نے Ph.D کی اعلیٰ ڈگری لی ہے۔ اس کے علاوہ

 فاضل مدینہ یونیورسٹی بھی ہے۔ دوسرا صاحبزادہ حاجی ثناءاللہ صاحب ہے، اس وقت محکمہ LB&RD میں بطور ایگزیٹیو انجینئر تعینات ہے۔ اور خیر الناس من ینفع الناس کے
فارمولے کے دیہی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

مولانا مرحوم کی بیوہ بھی عبادت گزار مؤمنہ تھیں۔ علماء اہلحدیث بلتستان انہیں روحانی ماں تصور کرتے تھے۔

مولانا عبدالقادر مرحوم کے خاص شاگردوں میں مندرجہ ذیل علماء قابل ذکر ہیں:۔ (1) مولانا محمد حسن اثری مرحوم (2) مولانا عبدالرحمن خلیق مرحوم (3) مولانا عبد الواحد صاحب

(4) مولانا محمود اسماعیل صاحب (5) مولانا عبد الرحمن روزی صاحب (6)مولانا عبد الرحیم روزی صاحب (7) مولانا عبد العزیز حسن صاحب۔

((ماخوذ از کتاب (جماعت اہلحدیث اور غواڑی منزل بہ منزل ) ( عنایت اللہ صدیقی) ص (79)))



 (2)  مولانہ عبدالرحیم مرحوم

مولانہ عبدالرحیم مرحوم سنہ 1277ھ میں یوگو میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مولانہ اخوند سودے علی بلغاری سے حاصل کی۔ وہاں سے فارغ ہونے پر

آٓپ دارالعلوم دیوبند میں کئی سال تک حصول علم میں مشغول رہے۔ اور سند فراغت حاصل کرکے واپس یوگو تشریف لائے۔

یہاں پرآپ نے کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ درس وتدریس اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کا مشھور شاگرد مولانہ ابراہیم غواڑی خطیب بڑی جامع مسجد تھا۔ اس کے علاوہ

بھی بہت سارے لوگوں نے آپ کے علم سے استفادہ کیا۔ آپ نے 78 سال کی عمر میں سنہ1355 ھ  میں وفات پائی۔


بقلم : یاسین سامی عبدالله

     متعلم جامعة الكويت

فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم خلیل بن عبدالكريم الفضلی حفظہ اللہ

      مولانا محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ تقریبا 1958 کو یوگو کے ایک نیک اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ 

آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی بزرگان دین سے حاصل کی۔شروع سے ہی قلب و ضمیر میں دینی علوم کے حصول کے

شوق اور لگن کے امواج موجزن تھے ۔ علمی پیاس بجھانے کے لئے دینی علم کے مرکز ومنبع دارالعلوم غواڑی کی طرف
روانہ ہوا ۔ وہاں سے گوناگوں علم و فن کے گوہر و موتی سے اپنے دامن لبریز کیا۔ دارالعلوم میں سرگرم عمل ممتاز علماء کرام
ومشائخ عظام کی علمی وسعتوں سے بہرہ مند ہوا۔
      آپ کے اساتذہ کرام میں مفتی اعظم مولانا عبدالقادر اور مولانا عبد الرشید ندوی رحمہ اللہ سر فہرست ہیں ۔ 

آپ کے بقول راقم نے سنا ہے کہ جامعہ دارالعلوم آپ کے نزدیک مادر علمی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس وقت کی اقتصادی

پستگی کو یوں بیان کرتا ہے کہ دارالعلوم میں قیام کے دوران طلبہ بہت سے آلائش وآلام سے دوچار ہوتے تھے اپنے 

اخراجات مکمل کرنے کے لئے مقامی لوگوں کے بھیڑ بکریاں چرانا پڑتا تھا۔ آپ دوران تعلیم کسی مقامی گھر میں قیام پذیر تھے۔

اور رسد وراشن وغیرہ گاؤں سے لاتے تھے۔ آپ کو کئی بار اس قصے کو دہراتے ہوئے سنا ہے کہ بعض دفعہ 

مولانا حسين آزاد حفظه اللہ طلبہ کو پانی میں ستو ملا کر پلاتے تھے ۔ بقول موصوف اس مشفقانہ اور ہدرانہ معاملے کو کبھی بھلایا نہیں جاتا۔

     مزید علمی جستجو کیلئے پنجاب کی درسگاہوں کی طرف جانے والے راستوں کی طرف گامزن ہوگیا۔ کئی مدارس میں 

زیر تعلیم رہا بالآخر جامعہ سلفیہ سے سند فراغت حاصل کی۔ رب رحیم وکریم کے خاص کرم و احسان پھر والدین کی پر خلوص دعاؤں

اور آپ کی علمی کاوشوں کی بدولت آپ کی قسمت کا تارا چمکا ۔ آپ کو عالم اسلام میں مشہور ونامور اور بے نظیر
ولامثال دینی علوم وفنون کی عظیم الشان درسگاہ الجامعۃ الاسلامیۃ مدینہ منورة میں داخلہ ملا۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے
کلیۃ الحدیث کا فاضل ہے۔ الغرض۔۔۔۔۔ یوگو سے نکلا علمی علمی درسگاہوں میں پروان چڑھا اور آخر بیرون ملک سے 

ایک نامور عالم دین اور اہل وطن کے لئے توحید وسنت کی طرف دعوت و تبلیغ کا علمبردار بن کر واپس لوٹا ۔سعودیہ عربیہ

سے واپسی کے بعد آپ نے مختلف مدارس میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیئے۔ عرصہ دراز تک جامعہ اثریہ جہلم 

میں مدرس متعین رہا۔ بعد ازاں آپ مرکز اسلامی سکردو میں تشریف لائے وہاں پر درس وتدریس کے ساتھ ساتھ مرکز کی

جامع مسجد اہلحدیث میں خطبہ ارشاد فرماتے رہے ۔ چند سال بعد مکتب الدعوة والارشاد کے مکتب رئیسی اسلام آباد میں 

ملازمت شروع کی۔ اس وقت آپ مدیر مکتب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ موصوف جامع مسجد اہلحدیث راوالپنڈ ی میں خطیب بھی ہیں۔

آپ کے خطبہ جمعہ سننے کیلئے دور دراز سے کثیر تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ 
      ہر عيسوي ماہ کی 19 تاریخ سے آخر تک ریڈیو پاکستان کے حی علی الفلاح پروگرام میں سوال وجواب اور دیگر دروس ارشاد فرماتے ہیں۔ 
      مولانا موصوف خوش اخلاق ، ہنس مکھ، حاضر جواب، شگفتہ رو، نہایت سنجیدہ، ملنسار، اور باوقارہیں۔ آپ کو اردو اور بلتی زبان میں مایہ ناز خطیب
اور مقرر گردانا جاتا ہے، آپ کی سریلی آواز سنتے ہی مسجدیں کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہیں۔ آپ جمعیت اہلحدیث بلتستان کے ممتاز عالم دین ہیں، اور جمعیت 

اور ادارہ کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیتے رہتے ہیں، خدمت خلق کا بڑ ا حصہ آپ کے حصے میں آیا ہوا ہے، اسی طرح محتاج وغنی، اپنے پرائے طالبعلموں

کی بلا تفریق وامتیاز مدد وتعاون فرماتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو دین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین میں کامیابی وکامرانی سے نوازیں اور
تمام نیک امنگیں امیدیں اور تمنائیں پوری ہو جائیں۔ (آمین)


بقلم : یاسین سامی عبدالله

        متعلم جامعة الكويت
         حضرت مولانا محمد ابراہیم بن محمد علی حفظہ اللہ ( خطیب جامع مسجد اہلحدیث)


مولانا محمد ابراہیم کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی. موصوف اخوند محمد علی کا چشم و چراغ ہے۔ ابتدائی تعلیم پدر محترم سے حاصل کی۔ بعد ازاں آپ مزید دینی علوم
کع تحصیل کی غرض سے آبائی گاؤں ترک کرکے بلتستان کے فقید المثال دینی درسگاہ دارالحدیث (موجودہ دارالعلوم)تشریف لے گئے۔ وہاں کے علماء،فضلاء سے مختلف علوم سے روشنی حاصل کی ۔
اس دور میں تنگدستی اور غربت اس منطقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھی تھی۔ خود راقم نے آپ کو گویا سنا ہے:اس زمانے میں سواری وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں تھا۔ پیدل جاتے تھے۔
اور ادارے کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی، طلبہ کو صرف ۲۰ ٹوپے جو کے علاوہ کوئی اخراجات نہیں دیے جاتے تھے( الحمد للہ اس وقت ہر قسم کی آسائش متوفرہیں) مگر مولانا موصوف 

کے من میں حصول علم کا شوق ، وجزبہ اور ولولہ ومحبت انگڑائی لے رہی تھی۔ علم کی تشنگی اور بڑھ گئی لہذا علمی پیاس بجھانے کی خاطر پنجاب کی طرف رخت سفر باندھا۔

وہاں پر مختلف دینی مدارس ومعاہد میں زیر تعلیم رہا۔ مدرسہ ماموں کانجن میں چند سال قیام کیا۔ آخر مدرسہ اڈانوالہ میں اپنے طالبعلمی دور کو سمیٹا اور اسناد فراغت حاصل کرکے
دین وعلم کے نور سے اپنے دامن سرشار کرکے اپنی قوم وملت کو قرآن وسنت کی دعوت تبلیغ کرنے کا مصمم ارادہ لے کر آبائی گاؤں  تشریف لائے۔
اس وقت مفتی اعظم مولانہ عبد القادر رحمہ اللہ بقید حیات تھے اور دعوت وتبلیغ کے میدان کا شاہسوار اور علمبردار تھا۔ اللہ کے خاص فضل و کرم سے آپ کی دعوت
اور کاوشوں کی بدولت تمام اہلیان یوگو حلقہ بگوش اہلحدیث ہوئے ہیں۔ مولانا عبد القادر رحمہ اللہ صاحب آپ کو دل وجان سے پیار کرتے تھے اور آپ میں اپنا جانشین
بننے کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ برائے ایں مختلف دینی اور جماعتی محافل ، مجالس اور مناسبات میں ساتھ رکھتے تھے۔ اور اپنی روح قفس عنصری سے پرواز
کرنے سے قبل ہی آپ کو اپنا جانشین بنا چھوڑا۔ چنانچہ آپکی وفات پر ملال کے بعد اصلاح وتربیت کی عظیم ذمہ داری نبھانے کا سہرا آپ کے سر بندھا۔ اسوقت اہالیان یوگو 

سے شرک وبدعات اور خرافات کی دیجور ،تاریک شب ختم نہیں ہوئی تھی۔ مختلف غیر شرعی رسم اور عرس پائے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ان تمام

غیر اخلاقی اور غیر شرعی افعال و اقوال کی بھیانک کھائی سے گاؤں والوں کو بچانے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ آخر کار رب رحمان ان گنت احسان واکرام سے ان تمام
گناہوں کی بیخ کنی ہوئی ہے۔ مولانا موصوف کو مفتی اعظم کی وفات کے فورا بعد ہی گاؤں والوں نے بالاتفاق گاؤں کا سربراہ مقرر کیا اور امامت وخطابت اور قضاءوافتاء
کا ذمہ دار بنایا۔ ۱۹۸۳ سے آپ ان فرائض کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔
آپ شعلہ بیان خطیب ہیں، اور حق گوئی و بیانی میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلتی برائیوں کے خلاف سدعظیم بن جاتا ہے اور خلاف شرع امور کے
خلاف بجلی بن کر گرتا ہے۔ راقم کی ذاتی رائے کے مطابق آپ بلتستان میں وہ واحد شخص اور مجاہد ہیں جو سد الذرائع کے طور پر اپنے گھر میں اس پرآ شوب وپر فتن
دور میں بھی ریڈیو تک نہیں رکھتا۔ بایں ہم بعض مخالفین نے آپ کی سیرت پر داغ و دھبہ ڈالنے کی ناکام کوشش بھی کی ، مگر آپ نے ان صورت حال میں تحمل وبردباری
سے کام لیا اور ان کے خلاف کوئی بری بات تک نہیں کی آخر ان کے منہ پر خاک خود ہی مل گئ۔ آپ جمیعت اہلحدیث بلتستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور
آجکل نائب رئیس مجلس العمل ہے۔ یوگو میں موجودہ دارلعلوم کی برانچ مدرسہ ابی بکر الصدیق کا انچارچ اعلی ہے۔ یوگو میں عوامی اور فلاح وبہود کے تمام کاموں میں آپ نے پیش پیش رہے ہیں۔

سکردو بلتستان الفضلی ترمیم

By : yasin sami yugovi student in kuwait university 25feb2007


فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ مولانا محمد ابراہیم خلیل الفضلی حفظہ اللہ تقریبا 1958 کو یوگو کے ایک نیک اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی بزرگان دین سے حاصل کی۔شروع سے ہی قلب و ضمیر

میں دینی علوم کے حصول کے شوق اور لگن کے امواج موجزن تھے ۔ علمی پیاس بجھانے کے لئے دینی علم کے مرکز ومنبع دارالعلوم غواڑی کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں سے گوناگوں 

علم و فن کے گوہر و موتی سے اپنے دامن لبریز کیا۔ دارالعلوم میں سرگرم عمل ممتاز علماء کرام ومشائخ عظام کی علمی وسعتوں سے بہرہ مند ہوا۔

آپ کے اساتذہ کرام میں مفتی اعظم مولانا عبدالقادر اور مولانا عبد الرشید ندوی رحمہ اللہ سر فہرست ہیں ۔ آپ کے بقول راقم نے سنا ہے کہ جامعہ دارالعلوم آپ کے نزدیک مادر علمی کا 

درجہ رکھتا ہے۔ اس وقت کی اقتصادی پستگی کو یوں بیان کرتا ہے کہ دارالعلوم میں قیام کے دوران طلبہ بہت سے آلائش وآلام سے دوچار ہوتے تھے اپنے اخراجات مکمل کرنے کے لئے مقامی لوگوں کے بھیڑ بکریاں چرانا پڑتا تھا۔ آپ دوران تعلیم کسی مقامی گھر میں قیام پذیر تھے۔ اور رسد وراشن وغیرہ گاؤں سے لاتے تھے۔ آپ کو کئی بار اس قصے کو

دہراتے ہوئے سنا ہے کہ بعض دفعہ مولانا حسن اثری رحمہ اللہ طلبہ کو پانی میں ستو ملا کر پلاتے تھے ۔ بقول موصوف اس مشفقانہ اور ہدرانہ معاملے کو کبھی بھلایا نہیں جاتا۔

مزید علمی جستجو کیلئے پنجاب کی درسگاہوں کی طرف جانے والے راستوں کی طرف گامزن ہوگیا۔ کئی مدارس میں زیر تعلیم رہا بالآخر جامعہ سلفیہ سے سند فراغت حاصل کی۔ رب رحیم وکریم کے خاص کرم و احسان پھر والدین کی پر خلوص دعاؤں اور آپ کی علمی کاوشوں کی بدولت آپ کی قسمت کا تارا چمکا ۔ آپ کو عالم اسلام میں مشہور ونامور

اور بے نظیر ولامثال دینی علوم وفنون کی عظیم الشان درسگاہ الجامعۃ الاسلامیۃ مدینہ منورة میں داخلہ ملا۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحدیث کا فاضل ہے۔ الغرض۔۔۔۔۔ یوگو
سے نکلا علمی علمی درسگاہوں میں پروان چڑھا اور آخر بیرون ملک سے ایک نامور عالم دین اور اہل وطن کے لئے توحید وسنت کی طرف دعوت و تبلیغ کا علمبردار بن کر
واپس لوٹا ۔سعودیہ عربیہ سے واپسی کے بعد آپ نے مختلف مدارس میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیئے۔ عرصہ دراز تک جامعہ اثریہ جہلم میں مدرس متعین رہا۔ 

بعد ازاں آپ مرکز اسلامی سکردو میں تشریف لائے وہاں پر درس وتدریس کے ساتھ ساتھ مرکز کی جامع مسجد اہلحدیث میں خطبہ ارشاد فرماتے رہے ۔ چند سال بعد مکتب الدعوة والارشاد کے مکتب رئیسی اسلام آباد میں ملازمت شروع کی۔ اس وقت آپ مدیر مکتب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ موصوف جامع مسجد اہلحدیث راوالپنڈ ی میں خطیب بھی ہیں۔ آپ کے خطبہ جمعہ سننے کیلئے دور دراز سے کثیر تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ہر ماہ کی 23 ویں تاریخ سے آخر تک ریڈیو پاکستان کے حی علی الفلاح پروگرام میں سوال وجواب اور دیگر دروس ارشاد فرماتے ہیں۔ مولانا موصوف خوش اخلاق ، ہنس مکھ، حاضر جواب، شگفتہ رو، نہایت سنجیدہ، ملنسار، اور باوقارہیں۔ آپ کو اردو اور بلتی زبان میں مایہ ناز خطیب اور مقرر گردانا جاتا ہے، آپ کی سریلی آواز سنتے ہی مسجدیں کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہیں۔ آپ جمعیت اہلحدیث بلتستان کے ممتاز عالم دین ہیں، اور جمعیت اور ادارہ کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیتے رہتے ہیں،

خدمت خلق کا بڑ ا حصہ آپ کے حصے میں آیا ہوا ہے، اسی طرح محتاج وغنی، اپنے پرائے طالبعلموں کی بلا تفریق وامتیاز مدد وتعاون فرماتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو دین کی مزید خدمت کرنے 

کی توفیق عطا فرمائے اور دارین میں کامیابی وکامرانی سے نوازیں اور تمام نیک امنگیں امیدیں اور تمنائیں پوری ہو جائیں۔ (آمین)