تعدد شوہری ایک ازدواجی نظم ہے جس میں ایک عورت کئی شوہر رکھتی ہے۔ تبت میں عمومًا یہ شوہر بھائی ہوا کرتے ہیں؛ لہٰذا یہ "برادرانہ تعدد شوہری" ہے۔ یہ بات کہ بچوں میں سے کون سے بچے کا باپ کون سا بھائی ہے، بیوی کی فکر ہے۔ وہ چاہے تو بتا سکتی ہے اور چاہے تو مخفی بھی رکھ سکتی ہے کیونکہ وہ یا تو خاندان میں تنازع پیدا نہیں کرنا چاہتی یا پھر وہ خود نہیں جانتی کہ حیاتیاتی باپ کون ہے۔[1] تاریخی طور پر سماجی نظام نے سماجی طبقے ہی میں شادی کے لیے مجبور کیا ہے۔

جب عوامی جمہوریۂ چین نے تبت پر قبضہ کیا، تبت کے کئی علاقوں کا سیاسی نظام غیرتبدیل شدہ رہا۔ 1959ء اور 1960ء کے بیچ متعارف کیے گئے سیاسی اصلاحات نے یہاں کی زمین کی ملکیت اور محاصل کا نظام بدل دیا۔[2] پروفیسر میلوین گولڈسٹین کے مطابق اس سے تبت کے روایتی شادی کا نظام متاثر ہوا۔ سماجی صفبندیوں میں تبدیلی کے ساتھ دُو-جُونگ اور می−بو نے سب سے پہلے شادی کی اس قسم سے اجتناب کیا جو قدیم سماج کا حصہ تھا۔

تاہم آبادی پر قابو کے اقدامات کے طور پر چین کی حکومت نے بعد میں تعدد شوہری کی شادیوں پر مکمل طور پر عائلی قانون کے تحت امتناع لگا دیا۔ حالانکہ یہ موجودہ طور پر غیر قانونی ہے، اجتماعی زراعت کے ختم ہونے اور زرعی زمینوں کی لمبی میعاد کے لیے انفرادی خاندانوں کو پٹے پر دیے جانے کے ساتھ ہی تبت میں تعدد شوہری بالحق امر بن گئی، خاص کر دیہی علاقوں میں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Uwe Gielen (1998)۔ Gender roles in traditional Tibetan cultures۔ In L.L Adler (Ed.), International handbook on gender roles. Westport, CT: Greenwood.۔ صفحہ: 413–437 . 
  2. Childs (2003) p.429

==بیرونی روابط==*