تجسیمی کیمیا
سالمہ/مالیکول کے اندر جوہر/ایٹم کی سہ جہتی ترتیب اور اس کے نتیجے میں مالیکول (سالمہ) کے طبیعی اور کیمیائی خواص پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ تجسیمی کیمیا کہلاتا ہے۔
کیمیائی تجزیے کے تین اہم پہلوؤں میں سے اولین پہلو میں تعین کیا جاتا ہے کہ ایک مالیکول کن ایٹموں پر مشتمل ہے جب کہ دوسرے میں دیکھا جاتا ہے کہ ایٹموں کے مابین کون سے کیمیائی بانڈز موجود ہیں، تیسرا پہلوں تجسیمی کیمیا ہے۔
تجسیمی کیمیا میں آئسومرزم/ہم جزء کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایسے کیمیائی مرکبات جن کی عنصری ترکیب ایک سی ہوتی ہے لیکن جوہروں کے مابین ترتیبی فرق کے باعث الگ الگ خصائص کا اظہار کرتے ہیں، آئسومرز کہلاتے ہیں۔ ایک سی ترکیب کے باوجود ترتیب کا فرق انھیں مختلف کیمیائی اور طبیعی خصائص دیتا ہے۔ اس کی مثال ڈائی کلوروبینزین ہے۔ اس کے دو آئسومرز میں سے پہلے، یعنی آرتھو، میں کلورین کے دو ایٹم بینزین چھلے میۂ ملحقہ کاربن ایٹموں سے منسلک ہوتے ہیں جب کہ دوسرے، یعنی پیراکلوروبینزین میں کلورین ایٹم متقابل کاربن ایٹموں سے منسلک ہوتے ہیں۔ یوں کیمیائی ترکیب ایک سی رہتی ہے لیکن مالیکول کی جیومیٹری بدل جاتی ہے۔ ان آئسومرز کے مختلف خصائص کی وجہ مالیکولی جیومٹری کا یہی فرق ہے۔ آئسومر کی ایک قسم آپٹیکل آئسومر کہلاتی ہے۔ ان میں بھی ترکیبی ہیئت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ترتیب میں ایک خاص گروپ دائیں طرف اور دوسرے میں بائیں صرف ہوتا ہے۔ یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے آئینوی عکس ہیں۔ یہ دونوں تقطیب شدہ روشنی کے پلین کو باہم مخالف سمتوں میں گردش کرواتے ہیں۔ گلوکوز اور ڈیکسٹروز آپٹیکل آئسومرز ہیں۔ گلوکوز تقطیب شدہ روشنی کے پلین کو دائیں جانب جب کہ ڈیکسٹروز بائیں جانب گھماتا ہے۔ تجسیمی کیمیا کی اہمیت حیاتیاتی کیمیا اور مالیکولی حیاتیات میں خاص طور پر زیادہ ہو جاتی ہے۔