تحریک استقلال ایک سیاسی جماعت تھی جو ایک وقت میں پاکستان کی دوسری سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت تھی۔ [1] اسے ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے تشکیل دیا تھا۔ [2]

اصغر خان 1969ء میں سیاست کے میدان میں وارد ہوئے اور اپنی سیاسی جماعت جسٹس پارٹی بنائی جس کا نام 1970ء میں بدل کر تحریک استقلال رکھ دیا گیا۔ مارچ 1969ء میں صدر ایوب خان کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں بھٹو صاحب کا ساتھ دیا۔ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے حلقے سے الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔ ان انتخابات کے بعد بھٹو صاحب کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اصغر خان کی سیاسی قد و قامت گھٹ گئی۔ بھٹو صاحب کے عہد میں حزب اختلاف میں رہے لیکن نہ حکومت نے نوٹس لیا نہ عوام نے۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو اس میں دوبارہ سیاست میں آنے کا موقع ملا۔ اور یوں پی این اے کی تحریک کے صف اول کے رہنما بنے۔ لیکن اس دفعہ بھی وہ سیاسی افق پر نمودار نہ سکے اور مارشل لا آگیا۔ یوں بھٹو صاحب کے خلاف چلائی جانے والی تحریک سے ایک آمر فیض یاب ہوا۔


تحریک استقلال گو کہ 1970ء کے انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی نہ حاصل کر سکی لیکن یہ پاکستان کی واحد پارٹی تھی جس نے سیاسی افراتفری اور پاکستان کی سالمیت کی خاطر حکومت وقت پہ بارہا دباؤ ڈالا کہ وہ الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کرکے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچائے۔ اپنا ملٹری بیک گراؤنڈ ہونے کے باوجود ائرمارشل محمد اصغر خان نے ملٹری کے فوج میں عمل دخل کو سب سے زیادہ ہدف تنقید بنایا۔ تحریک استقلال نے ہمیشہ ایک سیاسی انسٹی ٹیوٹ کا رول ادا کیا جہاں ارکان کو ایک مثبت اور صاف ستھری سیاست کی ترغیب ملی۔ اسمبلی میں طاقتور نہ ہونے کے باوجود ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت کو ایک ٹف ٹائم تحریک استقلال نے ہی ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب کی قیادت میں دیا۔ تحریک استقلال کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قائد محترم ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب مغربی پاکستان کے واحد لیڈر تھے جنھوں نے مشرقی پاکستان میں سیاسی افراتفری کے دوران بھی جلسہ کیا اور وہاں کی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان سے علیحدگی کی طرف نہ جائیں جبکہ اس دور میں حکومت کے پجاری ادھر تم ادھر ہم کی لہر چلا رہے تھے۔ بھٹو کی ظالمانہ حکومت کے خلاف ایک مضبوط اتحاد ( پاکستان قومی اتحاد ، پی این اے) بنانے میں بھی تحریک استقلال اور قائد محترم کا بہت اہم کردار رہا۔ گو کہ ذو الفقار علی بھٹو سے سیاسی اختلاف تھا لیکن 5 جولائی 1977ء کے جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کی بھی سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر مخالفت تحریک استقلال اور قائد محترم نے ہی کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت میں شمولیت اور وزیر اعظم بننے کی پیشکش کو بھی ماننے کی بجائے اس کی مخالفت کرنے کو ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب نے ہی ترجیح دی۔ اس مخالفت اور مزاحمت کے نتیجے میں ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب کو 16 اكتوبر 1979ء سے 2 اکتوبر 1984ء تک ہاوس اریسٹ (House Arrest) کیا گیا۔ گو کہ مفادات سیاست کا بازار دن بدن بڑھتی گیا لیکن تحریک استقلال نے اپنے اصولوں پہ قائم رہتے سیاسی کمزوری کو تو قبول کر لیا لیکن سودے بازی بھی نہ کی

جنوری 2012ء میں تحریک استقلال نے پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہونے کا اعلان کر دیا۔ [3]

23 ستمبر 2020ء کو تحریک استقلال کو از سر نو بحال کر دیا گیا اور اس کے صدر سابق وفاقی وزیر بیرسٹر سید نصرت علی شاہ بنے،

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Striking similarities between PTI and Tehrik-e-Istiqlal"۔ www.thenews.com.pk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2018 
  2. Shaikh Aziz (13 July 2014)۔ "A leaf from history: Was Asghar tipped as premier?"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2018 
  3. "Air marshal (retd) Asghar Khan joins PTI"۔ www.pakistantoday.com.pk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2018