تحفظ خواتین بل، پاکستان کے صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا ایک قانونی بل ہے جس کے مطابق خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ لیبرل افراد اور لیبرل تنظیموں نے اس بل کی حمایت کی ہے جبکہ مذہبی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ بل حکمران جماعت مسلم ن کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف میں موجودمذہبی جماعتوں کے مخالفت کے باوجود بھاری اکثریت کے ساتھ بل منظور ہوا۔ اس بل کے مطابق خواتین کو گھریلو تشدد، نفسیاتی اور جذباتی دباؤ، معاشی استحصال اور سائبر کرائمز سے مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ اس قانون کا عمل دخل صرف ایک صوبے تک محدود ہے۔

بل ترمیم

اس بل کے مطابق خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے درج ذیل تین طریقوں سے کام کیا جائے گا:

پروٹیکشن آرڈر ترمیم

نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والے افراد کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی، جس کے مطابق عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پر رہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے۔ تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہو سکے گا۔ عدالت ثبوتوں کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی۔ ان کو ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ بصورت دیگر اگر وہ شخص تیمپرنگ کر رہا ہے تو تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہو جائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے چھ ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائے گی۔

ریزیڈینس آرڈر ترمیم

اس کے مطابق تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔ اگر کوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکالے تو ایسی صورت میں عدالت متعلقہ خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اگر وہ بندوبست نہ کرسکے تو اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔ خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے وصول کرسکیں گی ۔

مانیٹری آرڈر ترمیم

جبکہ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی۔

موقف ترمیم

حکمران جماعت ترمیم

حکمران جماعت کے مطابق اس بل کے ذریعے خواتین کو گھریلو تشدد سے بچایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ نفسیاتی اور جذباتی دباؤ، معاشی استحصال اور سائبر کرائمز سے مکمل تحفظ دیا جاسکے گا۔

مذہبی جماعتیں ترمیم

مذہبی جماعتوں نے اس بل کو اسلامی معاشرے کے منافی قرار دیا ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت اہلحدیثاور جے یو آئی (ف) اس بل پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں، ذرائع کے مطابق ان دونوں رہنماؤں سے پارٹی کے سینئر لیڈر جلد ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

خارجی روابط ترمیم