ترجمان القرآن (تفسیر)
ترجمان القرآن مولانا ابوالکلام آزاد تفسیر قرآن ہے۔
ترجمان القرآن جو پہلی بار 1931ء میں طبع ہوئی تھی، دوسرا ایڈیشن 1964ء میں ساہتیہ اکادمی رابندرابھون، نئی دہلی سے مالک رام کے حواشی کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے، آزاد چونکہ ایک صاحب قلم تھے، اس بنا پر’’ ترجمان القرآن‘‘ ان کے انشاء کا بھرپور مظہر ہے، تاہم جہاں تک اصول تفسیر کا تعلق ہے تو وہ ائمۂ تفسیر ہی کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں اور بہت کم کوئی ایسی رائے قائم کرتے ہیں جو اسلاف کی رائے کے برخلاف ہو۔ مولانا کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کو اپنے عہد میں ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے لیے واحد راہنما ہو سکتی ہے۔ چونکہ وہ سیاسی میدان میں منہمک تھے، اس لیے مکمل قرآن کی تفسیر نہیں کرسکے تھے۔[1]
ترجمان القرآن تفسیر سورۂ بنی اسرائیل تک ہے، زیادہ تر ترجمہ اور مختصر حواشی ہیں، حواشی اختصار کے باوجود جامع ہیں؛ البتہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر کا حصہ بہت ہی مبسوط اور مفصل ہے اور گویا قرآن مجید کے مقاصد کا خلاصہ اور خود مولانا آزاد کے بہ قول قرآن کا عطر اور نچوڑ ہے، اس تفسیر کے بعض مقامات سے علما کو اختلاف رہا ہے؛ کیونکہ مولانا نے بعض معجزات سے متعلق تاویل سے کام لیا ہے۔