تعدیلہ بم
تعدیلہ بم یا neutron bomb، مرکزی اسلحہ کی ایک قسم ہے کہ جو انفجار کے وقت حرارت اور دھماکے سے زیادہ تعدیلوں (نیوٹرونز) کے اخراج پر زیادہ مرکوز ہوتی ہے تاکہ حیاتیاتی نسیجات اور شمارندی اختراعات کو ان تعدیلوں کی بمباری سے زیادہ سے زیادہ تباہ کیا جاسکے۔
نیوٹرون بم کے تخیل کو سیموئل کوہن نے 1958ء میں پیش کیا جس کا تعلق لارنس لیورمور قومی مختبر (LLNL) سے تھا۔ کینیڈی (صدر امریکا) کی جانب سے ابتدائی پس وپیش کے بعد 1962ء میں نیوادا میں اس کے تجربات کیے گئے، بعد میں جمی کارٹر (صدر) نے اسے 1978ء میں منسوخ کر دیا مگر پھر ریگن (صدر) نے اسے 1981ء میں دوبارہ شروع کر دیا۔[1]
طراز (ٹیکنیک)
ترمیمتعدیلہ قنبلوں یا نیوٹرون بموں کو، افزود تابکاری قنبلے (Enhanced Radiation Bombs) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے حرمرکزی (تھرمونیوکلیئر) ہتھیار ہوتے ہیں کہ جن میں دھماکے کے وقت ائتلافی عمل کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نیوٹرونوں کے انفجار کو ہتھیار کے اندر ہی جذب کرکے ائتلاف میں مزید شدد پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے نکل کر پھیل جانے دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے قنبلہ کے خول کو کرومیم اور نکل جیسی دھاتوں سے بنایا جاتا ہے اور یوں قصداً نیوٹرونوں یا تعدیلوں کو فرار کی اجازت دی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا، افزود تابکاری کی اصطلاح صرف دالفی تابکاری (Ionizing Radiation) کے وقت ہونے والے انفجار (برسٹ) کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو دھماکے سے خارج ہوتا ہے، اسے مرکزی برسات کے وقت ہونے والے تابکاری اضافہ یا کسی اور قسم کی تابکاری افزودگی کے لیے اسے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایک نیوٹرون بم کے لیے خاصی کثیر مقدار میں ٹرائٹیئم درکار ہوتا ہے جس کی نصف حیات 12.3 برس کی ہوتی ہے۔
تعدیلہ بموں کو ضد-میزائل (Anti-Missile) تدابیر کے لیے بھی استعمال کیے جانے کی منصوبہ گری ہے اور ایک جنگی حکمت عملی کے طور پر براہ راست (مقابل فوج کے خلاف؟) بھی۔ مثلاً، ضد-صاروخ کے طور پر امریکا اپنے صاروخی صومعہ (Missile Silo) کی طرف بڑھنے والے مخالف میزائلوں کے برقیاتی اجزاء کو نیوٹرون بموں سے نکلنے والے سیلان تعدیلہ (Neutron Flux) کے ذریعہ ناکارہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور براہ راست جنگی استعمال میں اسے مخالف زرہ پوش فوجیوں اور بکتربند گاڑیوں کو وسیع پیمانے پر نیوٹرون تابکاری یا اشعاع کاری (جو داخلے اور نفوذ کرجانے کی قوی صلاحیت رکھتی ہے) کے ذریعئے فنا کرنے کے منصوبے ہیں۔ [1]
قباحت اور اس کا حل
ترمیمبراہ راست جنگی حکمت عملی میں تابکاری اسلحہ کو استعمال کرنے میں ایک قباحت بھی ہے اور وہ یہ کہ ضد ذات اسلحہ (Anti Personal Weapon) کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اس کو اس قدر سریع الاثر اور خطرناک ہونا چاہیے کہ مخالف کا فوری خاتمہ کرسکے۔ اور ایسا کرنے کے لیے تابکاری کی سطح، خوراک مرگ (Lethal Dose) کی حد سے کئی گنا زیادہ ہونا چاہیے۔ عام طور پر 6 Gy (انجذابی خوراک یا ایبزوربڈڈوز کی اکائی) کو خوراک مرگ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس مقدار میں جسم میں جذب ہونے والی تابکاری کی خوراک ٪50 کو ہلاک کرتی ہے، مگر تابکاری کی اس مقدار کا اثر ظاہر ہونے (یعنی پچاس فیصد کو مرنے میں) گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ اور اس مقام پر انسانیت کش نیوٹرون بم کا کام شروع ہوتا ہے کہ ایک نیوٹرون بم یا تعدیلہ بم 80 Gy کی خوارک مرگ مہیا کرتا ہے اور حیات کی فوری ناپیدی میں انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔ صرف ایک کلو ٹن کا تعدیلہ بم یا نیوٹرون بم، بکتربند گاڑیوں (مثلا T-72) کی فوج کو 690 میٹر کی حد تک فنا کردیتا ہے جبکہ ایٹم بم کے لیے یہ حد 360 میٹر بیان کی جاتی ہے۔ جبکہ Gy 6 کی خوراک مرگ (یعنی انسانی فوج کے لیے) یہ فرق بالترتیب 1100 میٹر اور 700 میٹر ہے۔ یہی ہلاکت کی حدود، نیوٹرون بم اور ایٹم بم کے استعمال پر بغیر حفاظتی لباس کی فوج کے لیے بالترتیب 1350 میٹر اور 900 میٹر کی بتائی جاتی ہیں۔
عرصۂ اثر
ترمیمسیلان تعدیلہ یا نیوٹرون فلکس جو تعدیلہ بموں کے انفجار پر پیدا ہوتا ہے وہ ان بلند سیلان (High Flux) حدود میں جو اوپر بیان ہوئیں، ایک ثانوی تابکاری اثر بھی پیدا کرتا ہے اور اس فولاد کا خلیطہ (Alloy) جس سے زرہ بکتر بنتا ہے اس قدر تابکار ہوجاتا ہے کہ جو 24 تا 48 گھنٹے تک ہلاکت خیزی کی طاقت برقرار رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک کلوٹن نیوٹرون بم کے دھماکے سے فنا ہوجانے والی حد (اوپر بیان کردہ 690 میٹر) میں اس کی جگہ نئی فوج کو بھیجا جائے تو وہ بھی ثانوی بابکاری کے اثر کی وجہ سے 24 گھنٹے میں تابکاری کی خوراک اپنے جسموں میں وصول کرلے گی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "1978: Carter delays N-bomb production"۔ بی بی سی